نئے سال میں ایشیائی ممالک میں معاشی ترقی سست پڑسکتی ہے: اقوام متحدہ

نئے سال میں ایشیائی ممالک میں معاشی ترقی سست پڑسکتی ہے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2011ء کے دوران تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ایشیائی معیشتوں کی رفتار یورپ اور امریکہ کے اقتصادی مسائل کے باعث سست پڑجائے گی ۔ اقوام متحدہ کے ایک ماہر معاشیات کاکہناہے کہ ایشیا ئی ممالک کو اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیےعلاقائی مالیاتی اداروں کے قیام پر غور کرنا چاہیے ۔

سال کے اختتام پر جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جب دنیا بھر میں مملکتیں عالمی مالیاتی بحران کے دوران شروع کیے جانے والے اپنے امدادی پروگرام ختم کردیں گی تو وہ ایشیابحرالکاہل ممالک کی معیشتوں کے لیے ایک مشکل وقت ثابت ہوگا۔

نریش کمار اقوام متحدہ کے ایشیااور بحرالکاہل ممالک کے اقتصادی اور سماجی امور کے لیے چیف اکنامسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ہم ان ممالک کے لیے مزید چیلنجز دیکھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں اگلے سال ایشیا پیسفک ممالک کی معاشی ترقی کی رفتار میں کچھ کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ امریکہ اور یورپ میں معاشی بحالی کا سست عمل ہے اور وہ ایشیا بحرالکاہل ممالک کی معاشی ترقی کو متاثر کررہاہے۔

چین اور بھارت نے اپنی اقتصادی قوت کے باعث 2008ءمیں شروع ہونے والی عالمی معاشی بحران سے باہر نکلنے میں ایشیا کی قیادت کی۔ ان ممالک میں معاشی ترقی کی اوسط رفتار اس سال 8.3 فی صد رہی لیکن اگلے سال وہ گر کر سات فی صد ہوسکتی ہے۔

کچھ ایشیائی ممالک کو یورپ اور امریکہ سے سرمائے کے بہاؤ کے چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ میں کم منافع کے باعث بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی نظریں ایشیا پر ہیں اور معیشت کو مزید چھ کھرب ڈالر فراہم کرنے کے امریکی مرکزی بینک کے فیصلے سےایشیائی ممالک میں سرمائے کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

کمار کا کہنا ہے کہ یہ بہاؤ ایشیا کے لیے سونامی جیسے اثرات پیدا کرسکتا ہےکیونکہ سرمائے کے سیلاب کے بعد جب اسے اچانک نکالا جائے گا تو اس سے معیشت کو شدید نقصان ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ سرمائے کے بہاؤ سے حصص اور جائیداد کی قیمتوں میں تیزی آسکتی ہے اور افراط زر جنم لے سکتا ہے۔ انہوں نے حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ملک میں آنے اور وہاں سے جانے والے سرمائے پر کنٹرول کے لیے اقدامات کریں۔

کرنسسیوں کی قدر میں اضافہ برآمدات کے لیے نقصان دہ ہوگا ، جو حالیہ عشروں میں برآمدات میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ رہا ہے۔ کمار کا کہنا ہے کہ مالیاتی بحران نے ایشیا کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کاروبار کے ایسے ماڈلز تیار کرے جس میں مصنوعات کی علاقائی منڈیوں میں کھپت پر توجہ مرکوز ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کے ذخائر نے ایشیائی حکومت کے لیے علاقائی مرکزی بینک یا کسی مالیاتی ادارے کے قیام کی راہ ہموار کردی ہے جو اس سرمائے کو جس کی مالیت پانچ ٹریلین ڈالرسے زیادہ ہے، مزید پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایشیائی ممالک کو چاہیے کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ترقی کے لیے اسی طرح استعمال کرے جیسا کہ لاطینی امریکہ کے ممالک نے حالیہ برسوں میں کیا تھا۔

اگلے سال میں ایشیائی ممالک کی معیشتوں کی ترقی کی رفتار میں کمی کی پیش گوئیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت کے باعث ایشیائی معیشت کا مستقبل بدستور بہتر رہے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی معاشی ترقی میں ایک بڑے حصے دار کے طورپر ایشیا کی حیثیت برقرار رہے گی۔