تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس اکتوبر میں مشرقی ایشیائی سربراہ اجلاس کے لیے بنیاد فراہم کرے گا، جس میں عالمی سربراہان شرکت کریں گے، جن میں امریکی صدر براک اوباما شامل ہوں گے
واشنگٹن —
بدھ کے روز جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس برونائی میں شروع ہوا، جس میں متوقع طور پر بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات ایجنڈا پر سرفہرست ہوں گے۔
امریکہ، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر علاقائی طاقتوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ دفاعی عہدے دار بھی اِس سربراہ اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔
علاقائی تنازعات پر تصادم کی صورت حال سے بچنے کی غرض سے، کسی قابلِ قبول ضابطہ اخلاق کی شرائط طے کرنے کے لیےاور چین کو بات چیت کا حصہ بنانے کے لیے، اجلاس سے قبل، تنظیم کے کچھ وزرائے خارجہ نے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
مالکم کُک، فلائنڈرز یونیورسٹی کے ’اسکول آف انٹرنیشل اسٹڈیز‘ کے ڈین ہیں۔ تجزیہ کار نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ یہ ممکن نہ ہوگا کہ چین کسی ضابطہ اخلاق کو طے کرنے کے لیے فوری طور پر تیار ہو۔
حکام کا کہنا ہے کہ برونائی کے اجلاس کے باہر چین کے اپنے ہم منصب جنرل چانگ وان کوان کے ساتھ ملاقات میں، امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل اِس طرح کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کے منصوبے پر چین کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔
چین کےمتعدد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ، علاقائی نوعیت کے متضاد دعوے رکھتا ہے جب کہ وہ تنازعات کے حل کےلیے تنظیم کے ساتھ معاملات طے کرنے سے کتراتا ہے۔ بجائے اس کے، وہ ہر ملک سے الگ الگ معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
جنوبی بحیرہٴ چین میں وسائل سے مالا مال جزیروں کے معاملے پر، برونائی، فلپائین، تائیوان، ویتنام اور ملائیشیا چین کے ساتھ علاقائی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ جاپان اور چین مشرقی بحیرہ چین کے علیحدہ تنازع میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس اکتوبر میں مشرقی ایشیائی سربراہ اجلاس کے لیے بنیاد فراہم کرے گا، جس میں عالمی سربراہان شرکت کریں گے، جن میں امریکی صدر براک اوباما شامل ہوں گے۔
امریکہ، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر علاقائی طاقتوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ دفاعی عہدے دار بھی اِس سربراہ اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔
علاقائی تنازعات پر تصادم کی صورت حال سے بچنے کی غرض سے، کسی قابلِ قبول ضابطہ اخلاق کی شرائط طے کرنے کے لیےاور چین کو بات چیت کا حصہ بنانے کے لیے، اجلاس سے قبل، تنظیم کے کچھ وزرائے خارجہ نے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
مالکم کُک، فلائنڈرز یونیورسٹی کے ’اسکول آف انٹرنیشل اسٹڈیز‘ کے ڈین ہیں۔ تجزیہ کار نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ یہ ممکن نہ ہوگا کہ چین کسی ضابطہ اخلاق کو طے کرنے کے لیے فوری طور پر تیار ہو۔
حکام کا کہنا ہے کہ برونائی کے اجلاس کے باہر چین کے اپنے ہم منصب جنرل چانگ وان کوان کے ساتھ ملاقات میں، امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل اِس طرح کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کے منصوبے پر چین کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔
چین کےمتعدد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ، علاقائی نوعیت کے متضاد دعوے رکھتا ہے جب کہ وہ تنازعات کے حل کےلیے تنظیم کے ساتھ معاملات طے کرنے سے کتراتا ہے۔ بجائے اس کے، وہ ہر ملک سے الگ الگ معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
جنوبی بحیرہٴ چین میں وسائل سے مالا مال جزیروں کے معاملے پر، برونائی، فلپائین، تائیوان، ویتنام اور ملائیشیا چین کے ساتھ علاقائی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ جاپان اور چین مشرقی بحیرہ چین کے علیحدہ تنازع میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس اکتوبر میں مشرقی ایشیائی سربراہ اجلاس کے لیے بنیاد فراہم کرے گا، جس میں عالمی سربراہان شرکت کریں گے، جن میں امریکی صدر براک اوباما شامل ہوں گے۔