ویب ڈیسک۔اگر نیویارک شہر کے لئے سطح سمندرمیں ہونے والا اضافہ پریشان کن نہیں ہےتو شہر کو درپیش خطرات میں فلک بوس عمارتوں، گھروں، اسفالٹ اور خود انسانیت کے مسائل کےحوالے سے بڑھتے ہوئے بوجھ کو بھی شامل کر لیں ۔نئی تحقیق کے ایک اندازے کے مطابق شہر کا زمینی حصہ اوسطاً ایک سے دو ملی میٹر سالانہ کی شرح سے ڈوب رہا ہے ۔
اس صورتحال کو ’’سبسی ڈنس‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ قدرتی عمل ہر جگہ کارفرماہے کیونکہ زمین دب جاتی ہے ۔ تاہم اس ماہ ’’ارتھز فیوچر‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ شہر کا بڑھتا ہوا وزن صورتحال کو کیسے تیزی سے خراب کر رہا ہے ۔
شہر کے پانچ علاقوں میں دس لاکھ سے زائد عمارتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ تحقیقی ٹیم نے حساب لگایا کہ ان کی موجودگی سے شہر کے بنیادی ڈھانچے میں تقریباً 1.7 ٹریلین ٹن یا1.5 ٹریلین میٹرک ٹن کنکریٹ، دھات اور شیشے کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ایمپائر اسٹیٹ میں تقریباً 4,700 عمارتوں کا حجم زمین کو دبا رہا ہے ۔
اس دباؤ یا کمپریشن کی شرح شہر کے مختلف حصوں میں مختلف ہوتی ہے۔ مڈ ٹاؤن مین ہٹن کی فلک بوس عمارتیں زیادہ تر چٹان پر تعمیر کی گئی ہیں جو زمین کو زیادہ دبا نہیں پاتیں۔ تاہم بروکلین، کوئینز اور مین ہیٹن کے مرکز کے کچھ حصے نرم مٹی پر بنے ہیں۔ اس لئے یہ تیزی سے دھنس رہے ہیں۔ اس جائزے میں یہ تفصیل بتائی گئی ہے۔اگرچہ یہ عمل سست ہے تاہم یو ایس جیولوجیکل سروے کے محقق ٹام پارسنز نے کہا کہ شہر کے کچھ حصے بالآخر زیر آب ہو جائیں گے۔
پارسنز کہتے ہیں کہ ’’یہ ناگزیر ہے. زمین نیچے دھنس رہی ہے اور پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ یہ دونوں سطحیں ایک دوسرے سے مل جائیں گی ۔‘‘
پارسنز زلزلوں اور سونامی کے ذریعے زیر زمین فالٹ لائینز کے شفٹ ہونے سے رونما ہونے والے خطرناک اثرات کا قبل از وقت اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ فی الوقت انسانی زندگی کو بچانے میں سرمایہ کاری کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مطالعے میں صرف اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ عمارتیں تبد یل ہوتے ہوئے منظرنامے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ پارسنز اور محققین پر مشتمل ان کی ٹیم نے سیٹلائٹ امیجنگ، ڈیٹا ماڈلنگ اور بہت سے ریاضیاتی مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ نتائج اخذکئے ہیں ۔
اس میں سیکڑوں سال کا وقت لگے گا تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حتمی طور پر ایسا کب ہو گا جب نیویارک امریکہ میں وینس کا منظر پیش کرنے لگے۔ وینس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بحیرہ ایڈریاٹک میں ڈوب رہا ہے۔تاہم نیو یارک شہر کے کچھ حصوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہے۔
’’وہاں بہت زیادہ وزن ہے اور وہاں بہت سے لوگ ہیں۔‘‘ پارسنز نے اس ضمن میں خاص طور پر مین ہیٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جزیرے کے جنوبی حصے کی اوسط بلندی سطح سمندر سے صرف ایک یا 2دو میٹر زیادہ ہے اور سطح آب کے بہت قریب بھی ہے جس کے باعث یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔‘‘
سمندر کی سطح میں اسی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس شرح سے زمین ڈوب رہی ہے۔ زمین پر آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلی شہر کے کچھ حصوں کے پانی کے زیر آب آ جانے کے وقت کو مختصر بھی سکتی ہے ۔
پارسنز نے کہا کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں عمارتوں کی تعمیر روک دینی چاہیے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ محض عمارتیں اس کی واحد وجہ ہیں۔در اصل اس کے متعدد عوامل ہیں۔ اس کی پیشگی نشاندہی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ایک بڑا مسئلہ بننے سے پہلے صورتحال سے آگا ہی حاصل کر لی جائے۔
نیو یارک سٹی پہلے سے ہی بڑے طوفانوں کی وجہ سے سیلاب کے خطرے سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں سطح سمندر بلند ہو سکتی ہے یا موسلا دھار بارشیں علاقوں میں طغیانی کا باعث بن سکتی ہیں ۔
ان سیلابوں کے نتائج تباہ کن اور مہلک ہو سکتے ہیں جیسا کہ ایک دہائی قبل شدید طوفان سینڈی اور دو سال پہلے آنے والے سمندری طوفان آئیڈا کی باقیات کا ابھی بھی مشاہدہ کیا جا سکتا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے کلائمیٹ اسکول کے ایک سینئر محقق اینڈریو کروزکیوچز نے کہا کہ ’’سائنسی نقطہ نظر سے یہ ایک اہم مطالعہ ہے۔‘‘ کروزکیوچز خود اس تحقیق میں شامل نہیں تھے۔
اس مطالعے کے نتائج سے پالیسی سازوں کو آگاہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ وہ سطح سمندر میں اضافے کے خطرے کا مقابلہ کرنے یا کم از کم اسے روکنے کے لیے جاری منصوبوں کا مسودہ تیار کرتے ہیں۔
کروزکیوچز کہتے ہیں کہ ’’ہم بغیر کوئی قدم اٹھائے سطح سمندر میں اضافے کی ایک کلیدی حد کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے کہا : ’’کیونکہ انتظار کرتے رہنے کے نتیجے میں ہم پیشگی کارروائی کرنے اور تیاری کے اقدامات اٹھانے سے محروم رہیں گے۔‘‘
نیو یارک سٹی وہ واحد شہر نہیں جسے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے ۔ایک اور امریکی شہر سان فرانسسکو میں بھی دباؤ زیادہ ہے اوروہ زلزلے کی فالٹ لائنوں کی زد میں بھی ہے۔
ادھر انڈونیشیا میں حکومت جکارتہ سے ممکنہ طور پر پیچھے ہٹنے کی تیاری کر رہی ہےجو بحیرہ جاوا میں ڈوب رہا ہے اور ایک بالکل مختلف جزیرے کی بلند سطح پر نئے دارالحکومت کی تعمیر ہو نے والی ہے۔
(اس خبر کی کچھ معلومات ایسوسی ایٹد پریس سے لی گئی ہیں)