قبائلی جرگے کی کوشش؛ ٹی ٹی پی نے فوجی افسر، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر مغویوں کو رہا کر دیا

فائل فوٹو

  • فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے فوجی افسر سمیت دیگر کی بازیابی کا بیان جاری کیا ہے۔
  • لیفٹننٹ کرنل سمیت ان کے چار رشتے داروں کی بازیابی ہفتے اور اتوار کی درمیان شب ہوئی: آئی ایس پی آر
  • فوج کے لیفٹننٹ کرنل، ان کے اسسٹنٹ کمشنر بھائی اور دیگر رشتے داروں کو بدھ کو اغوا کیا گیا تھا۔
  • آئی ایس پی آر کے مطابق مغویوں کی بازیابی میں قبائلی جرگے نے کردار ادا کیا۔

پشاور—خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) سے اغوا ہونے والے پاکستان کی فوج کے لیفٹننٹ کرنل، ان کے اسسٹنٹ کمشنر بھائی اور خاندان کے دیگر افراد قبائلی جرگے کی کوشش سے ٹی ٹی پی کی تحویل سے بازیاب ہو گئے ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق لیفٹننٹ کرنل خالد امیر خان ان کے دو بھائی اور بھتیجا ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بازیاب ہوئے ہیں۔

بیان کے مطابق مغویوں کی بازیابی میں جرگے نے اہم کردار ادا کیا اور چاروں افراد کو بازیابی کے بعد گنڈاپور قبیلے کے حوالے کردیا گیا ہے ۔

لیفٹننٹ کرنل خالد امیر خان، ان کے دو بھائیوں اور بھتیجے کو نامعلوم مسلح افراد نے بدھ کی شام ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے اغوا کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجوؤں نے یہ کارروائی اس وقت کی تھی جب خالد امیر خان اپنے گاؤں کی ایک مسجد میں رشتے داروں کے ہمراہ متوفی والد کی فاتحہ خوانی کے لیے جمع تھے۔

اسی روز بدھ کو ان کے والد امیر محمد خان کی تدفین ہوئی تھی۔

ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے جمعرات کی سہ پہر لیفٹننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے بھائی کنٹونمنٹ بورڈ کے اسسٹنٹ کمشنر آصف امیر کے ویڈیو پیغامات جاری کیے تھے۔

ان ویڈیو پیغامات میں انہوں نے حکومت سے مسلح افراد کے مطالبات ماننے کی اپیل کی تھی۔

پیغامات میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی تحویل میں ہیں اور ان کو بہت دور لے جایا گیا ہے۔

SEE ALSO: ڈیرہ اسماعیل خان: فوجی افسر اور بھائیوں کے اغواکار کن کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں؟

فوجی افسر اور ان کے اسسٹنٹ کمشنر بھائی کے ویڈیو پیغامات جاری ہونے کے بعد مقامی قبائلیوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اغوا کار فوج کے افسر اور ان کے تین دیگر رشتے داروں کی رہائی کے عوض اپنے 20 ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ 50 کروڑ روپے تاوان بھی طلب کیا جا رہا ہے۔

مسلح افراد نے جن 20 مبینہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ان کی شناخت سرکاری طور پر تو سامنے نہیں آئی۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سوات کے سابق ترجمان مسلم خان، ملک محمود اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والا مولوی عمر شامل ہیں۔

فوج کے افسر، کنٹونمنٹ بوڈ کے اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر کی بازیابی کے بعد فوج کے جاری ہونے والے بیان میں اغوا کاروں کے مطالبات ماننے یا نہ ماننے کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

SEE ALSO: میران شاہ کنٹونمنٹ پر راکٹ حملہ؛ وزیرستان میں جھڑپوں کے دوران متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

واضح رہے کہ فوجی افسر اور دیگر افراد کی رہائی ایسے موقع پر ہوئی ہے جب اتوار کو ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فورسز کی مبینہ کارروائیاں جاری ہیں۔

ضلع خیبر میں سیکیورٹی فورسز کے گن شپ ہیلی کاپٹر اتوار کو فضا میں نظر آتے رہے ہیں۔

سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق تیراہ کے علاقے زبیر کلے میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حالیہ کارروائیوں میں پانچ عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ تین عسکریت پسندوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ کارروائی اب بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے سرکاری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا جب کہ میڈیا کی آزادانہ رسائی نہ ہونے کے سبب اطلاعات کی تصدیق بھی نہ ہو سکی۔

قبل ازیں ہفتے کو شمالی و جنوبی وزیرستان اور ضلع خیبر کی وادیٔ تیراہ میں سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں حکام نے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ میں کینٹ کے علاقے پر راکٹ داغا گیا جو وہاں قائم ہیلی پیڈ پر جا لگا۔ حملے میں دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ جنوبی وزیرستان میں ہفتے کو سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ مقامی افراد کے مطابق عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے متعدد اہلکار زخمی ہوئے۔ حکام نے اس کی تصدیق تو نہیں کی البتہ ان کا دعویٰ تھا کہ جھڑپوں میں کم از کم آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔