قطب شمالی کا مرکزی حصہ جسے آرکٹک سرکل بھی کہا جاتا ہے اور جہاں ہزاروں برسوں سے سیکڑوں فٹ موٹی برف کی تہہ جمی ہوئی ہے، وہاں موسم اتنا بدل گیا ہے کہ 20 جون کو 100 ڈگری فارن ہائیٹ (لگ بھگ 37 ڈگری سینٹی گریڈ) سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ وہاں معلوم تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت ہے۔
تپتے ہوئے صحرا ہوں یا یخ بستہ بلند و بالا چوٹیاں، انسان بلا خوف و خطر ہر جگہ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ آرکٹک سرکل میں بھی ایک چھوٹا سا قصبہ قائم ہے جس کا نام ورخویانسک ہے۔ یہ انسانی آبادی وہاں کوئی آج سے نہیں بلکہ 17 ویں صدی کے وسط سے ہے اور 2010 کی مردم شماری کے مطابق وہاں 1300 سے زیادہ نفوس آباد تھے۔
سردیوں میں ورخویانسک کا درجہ حرارت عموماً صفر سے 50 ڈگری فارن ہائیٹ نیچے رہتا ہے۔ مگر اس بار قدرت نے یہ تماشہ دکھایا کہ وہاں کا ٹمپریچر 100 درجے فارن ہائیٹ تک جا پہنچا جو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بھی گرمیوں میں کم کم ہی ہوتا ہے۔
موسمیات کے عالمی ادارے نے 100 اعشاریہ 4 ڈگری فارن ہائیٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قطب شمالی کے دائرے میں معلوم تاریخ کی بلند ترین درجہ حرارت ہے۔
کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل کئی عشروں سے بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، موسم نہ صرف بدل رہے ہیں بلکہ شدید سے شدید تر ہو رہے ہیں۔ کہیں طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں اور طغیانیاں آرہی ہے تو کہیں قحط اور خشک سالی نے مستقل ڈیرے جما لیے ہیں۔ سمندروں کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے اور ساحلی علاقوں کے غرقاب ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
سائنس دان اس بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذمہ دار حضرت انسان کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی غیر ذمہ دارانہ ترقیاتی سرگرمیاں زمین کا فطری توازن بگاڑ رہی ہیں۔
لیکن قطب شمالی کے دائرے میں ایک ایسے موقع پر ریکارڈ درجہ حرارت کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانی سرگرمیاں محدود ہو چکی ہیں اور کرہ ہوائی میں کاربن گیسوں کی مقدار میں غیر معمولی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سائنس دان زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا ذمہ دار زیادہ تر کاربن گیسوں کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب کاربن گیسوں میں کمی کے باوجود قطب شمالی تک میں درجہ حرارت نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔
ورخویانسک اس سے پہلے بھی درجہ حرارت کی اونچ نیچ کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ اس سے قبل 25 جولائی 1988 میں وہاں 99 ڈگری فارن ہائیٹ پر درجہ حرارت پہنچ گیا تھا۔ اب نیا ریکارڈ 32 سال کے بعد قائم ہوا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا کے اس دور میں مئی کے مہینے میں عالمی درجہ حرارت ایک نئی بلندی پر پہنچ گیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 1981 سے 2010 تک کے اوسط عالمی درجہ حررات کے مقابلے میں 2020 کا مئی کا درجہ حرارت اعشاریہ 63 درجہ زیادہ رہا۔ اس سال گرمی کی اس لہر کا ہدف خاص طور پر شمال مغربی سائیبریا بن رہا ہے۔
سائنس دانو ں کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں دسمبر سے مئی تک سائبیریا کا اوسط درجہ حرارت 1979 سے، جب سے ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، بلند ترین رہا۔ انہوں نے اس اہم نقطے کی جانب بھی توجہ دلائی کہ قطبی علاقے میں درجہ حرارت میں اضافہ کرہ ارض کے باقی حصوں کے مقابلے میں دگنی رفتار سے ہوتا ہے۔
کوپن ہیگن میں قائم ڈنمارک کے موسمیاتی ادارے کے ایک سائنس دان مارٹن اسٹینڈل کا کہنا ہے کہ جنگلوں میں آتشزدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور صدیوں سے منجمد گلیشیئروں کے تیزی سے پگھلاؤ کی وجہ سے قطبی علاقوں میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہونا ایک معمول بن جائے گا۔