لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ جس میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 'عورت مارچ' کا انعقاد روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست گزار اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا ہے کہ 'عورت مارچ' کا انعقاد پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے ایماء پر کیا جا رہا ہے۔ جو ریاست مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ لہذٰا اس سال عورت مارچ کا انعقاد روکنے کا حکم جاری کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عورت مارچ کے لیے خفیہ فنڈنگ کی جا رہی ہے۔ جس کے پیچھے پی ٹی ایم ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست کے متن کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو عورت مارچ کے خلاف درخواست دی گئی تھی۔ لیکن ایف آئی اے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عورت مارچ کی آڑ میں فحاشی پھیلائی جا رہی ہے اور گزشتہ سال منعقد ہونے والے عورت مارچ کے شرکا نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جن پر قابل اعتراض جملے درج تھے۔
درخواست گزار وکیل اظہر صدیق نے عدالت سے استدعا کی کہ لاہور کی مال روڈ پر ویسے ہی کسی بھی احتجاج یا ریلی کی اجازت نہیں۔ لہذٰا عدالت حکومت مخالف سرگرمیاں روکنے کے علاوہ اس قانون پر بھی عمل درآمد کرائے۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق نے کہا کہ عورت مارچ کے نام پر گزشتہ سال بھی ایک باقاعدہ تقریب کی گئی۔ اُن کے بقول اگر کسی قانون میں سقم ہے تو دوبارہ قانون سازی کی جائے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ مذہب کا مذاق اُڑائیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مامون الرشید نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے 27 فروری کو ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ اور ڈی آئی جی آپریشنز پولیس لاہور کو طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو وزارتِ داخلہ سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
عورت مارچ لاہور کی منتظمین میں شامل علینہ غنی کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ تین سالوں سے عورت مارچ میں شرکت کر رہی ہیں اور اِس سال بھی کریں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علینہ غنی نے بتایا کہ وہ اپنے مارچ کے لیے چندہ اکٹھا کرتی ہیں اور اُن کے مارچ کو پی ٹی ایم یا کوئی بھی دوسری تنظیم سپورٹ نہیں کرتی۔
علینہ غنی نے مزید بتایا کہ وہ ہر سال حکومت کی اجازت سے خواتین کے حقوق کے لیے ریلی نکالتی ہیں اور اِس سال بھی اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو آٹھ مارچ کو نکالی جانے والی ریلی کے لیے باقاعدہ درخواست دی ہے۔ اور اُمید ہے کہ حکومت کی طرف سے این او سی مل جائے گا۔
SEE ALSO: عورت مارچ، ایک تحریک یا بحث؟علینہ کے بقول یہ ہمارا حق ہے کہ ہم پُرامن رہ کہ اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا سکیں۔
علینہ غنی نے مزید بتایا کہ عورت مارچ کی تمام منتظمین کسی این جی او، کسی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ سب کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں۔
ان کے بقول عورت مارچ کا فحاشی سے کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ عورت مارچ میں نہیں آئے اُنہوں نے میڈیا پر اُچھالے گئے کچھ پوسٹرز جو کہ غلط تھے اور فوٹو شاپ کیے ہوئے تھے۔
گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لاہور سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں عورت مارچ کے نام سے ریلیاں نکالی گئیں تھی۔ جس میں شریک خواتین نے اپنے حقوق کے لیے پلے کارڈز اور پوسٹرز اُٹھا رکھے تھے۔ جن پر مختلف حلقوں کی جانب سے اُن پلے کارڈز اور پوسٹرز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
گزشتہ سال آٹھ مارچ کو عورت مارچ ریلی نکالے جانے پر لاہور کے سیشن کورٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ریلی کے منتظمین کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔