پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان(جے پی پی) نے حکومت سے ذہنی طور پر معذور قیدی کو دی جانے والی سزائے موت روکنے کی اپیل کی ہے۔ 38 سالہ قیدی غلام عباس کو 18 جون کو پھانسی دی جائے گی۔
قیدیوں کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم کے مطابق راولپنڈی کی سیشن عدالت نے ذہنی معذور قیدی غلام عباس کی سزائے موت کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں اور اگر یہ وارنٹ معطل نہ ہوئے تو قیدی کو 18 جون کو پھانسی دے دی جائے گی۔
جسٹس پراجیکٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اڈیالہ جیل میں قید 36 سالہ غلام عباس میں ذہنی امراض کی علامات واضح ہیں اس لیے اس کی پھانسی روکی جائے۔
تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ ماہر نفسیات ڈاکٹر ملک حسین نے تصدیق کی ہے کہ ’طبی ریکارڈ کے مطابق جیل حکام نے غلام عباس کو ذہنی امراض کی سخت ادویات دیں‘۔
تنظیم کی جانب سے متعلقہ اداروں سے درخواست کی گئی ہے کہ انھیں غلام عباس تک رسائی دی جائے تاکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا اچھی طرح معائنہ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر ملک حسین کہتے ہیں کہ ان کی پیشہ ورانہ رائے کے مطابق قیدی کو راولپنڈی کے مینٹل ہیلتھ سینٹر منتقل کیا جانا چاہیئے تاکہ اس کا باقاعدہ علاج ممکن ہو سکے۔
جسٹس پراجیکٹ کی ڈائریکٹر ندا جعفری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ غلام عباس کی سزائے موت کی سزا کالعدم قرار دینے کی حکومت سے درخواست کی ہے تاکہ انھیں ذہنی معذور کے بحالی مراکز میں منتقل کر کے علاج کیا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ غلام عباس کی سزا کو رکوانے کے لئے وکلاء کام کر رہے ہیں اور ان کی تنظیم نے متعلقہ اداروں سے درخواست کر رکھی ہے، غلام عباس کا تفصیلی معائنہ کرنے دیا جائے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ کیا وہ واقعی ذہنی معذور ہیں یا نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس حوالے جیلوں میں قید متعدد قیدیوں کے کیسز کو ان کی تنظیم دیکھ رہی ہے اور ان تک رسائی اور معلومات کے حصول میں انھیں شدید دشواری کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ غلام عباس 2004ء سے راولپنڈی کی جیل میں قید ہیں اور 2006ء میں انھیں ہمسائے کے قتل کے جرم میں ضلعی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
جے پی پی کے مطابق غلام عباس کی والدہ کی جانب سے سزا کے خلاف صدر مملکت سے رحم کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس جے پی پی کی شائع رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد 4 ہزار 6 سو 88 ہے جن میں صرف پنجاب کی جیلوں میں قید ذہنی مریض قیدیوں کی تعداد ایک سو 88 ہے۔