اسد دور میں تشدد اورہلاکتوں کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا: ابو محمد الجولانی

شام کے باغی رہنما ابو محمد الجولانی کی 12 مارچ کی ایک پریس کانفرنس کی تصویر۔ فوٹو اے ایف پی

  • اسد دور میں تشدد اورہلاکتوں کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا
  • شام کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد بشیر نے خانہ جنگی کے دوران فرار ہونے والوں سے ملک واپس لوٹنے کی درخواست کی ہے۔
  • میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کی اس خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
  • تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار شامیوں کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران فوجی جیلوں سے غائب ہو گئے تھے۔
  • بہت سے شامی شہری اسد دورمیں قید کیے گئے اپنے عزیزوں کو جیلوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

اسد کی معزولی کے بعد دمشق پر قابض ہونے والے جنگجوؤں کے ایک اہم کمانڈر نے کہا ہے کہ اسد کی آمرانہ اور سخت گیر حکومت کے دوران حراست میں رکھے گئے افراد پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں میں ملوث کسی بھی شخص کو معافی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور انہیں تلاش کیا جائے گا۔

ابو محمد الجولانی نے شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے چینل ٹیلی گرام پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم شام میں ان کا تعاقب کریں گے اور ہم دوسرے ملکوں سے بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ فرار ہونے والے لوگوں کو ہمارے حوالے کریں تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

SEE ALSO: شام:پھانسی کے منتظر قیدی بھی آزاد، دمشق کی گلیوں میں جشن

میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کی اس خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں، جب کہ ملک کی نصف آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکی ہے اور تقریباً 60 لاکھ شامی باشندے بیرونی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ایسے میں جب شام کےشہر ی اسد حکومت کے خاتمے پر سڑکوں پر خوشی منارہے ہیں بہت سے شامی شہری اسد دورمیں قید کیے گئے اپنے عزیزوں کو جیلوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

ان میں سے بیشتر کو گرفتاری کے بعد سے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے۔

SEE ALSO: ’انسانی مذبح خانے‘ کے نام سے معروف اسد حکومت کے صيدناياجیل کے قیدیوں کی دلدوز کہانیاں

ایسے تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار شامی ہیں جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ خانہ جنگی کے دوران فوجی جیلوں میں غائب ہو گئے تھے۔

شام کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد بشیر نے خانہ جنگی کے دوران فرار ہونے والوں سے ملک واپس لوٹنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شام اب ایک آزاد ملک ہے اور اس نے اپنا فخر و افتخار حاصل کر لیا ہے۔ اب اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔

SEE ALSO: اسد کے بعد کا شام: داعش سے نمٹنے کی امریکی حکمت عملی کیا ہو گی؟

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ "نئی حکومت کو اس بارے میں واضح وعدوں پر بھی قائم رہنا چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرے گی، تمام ضرورت مندوں کے لئے انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کو آسان بنائیگی، شام کو دہشت گردی کے ایک اڈے کے طور پر استعمال ہونے یا اپنے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ بننے سے روکے گی، اسے یقینی بنائے گی کہ کیمیائی یا جراثیمی ہتھیاروں کے تمام ذخیرے محفوظ ہوں اور بحفاظت تلف کر دیے جائیں۔"

SEE ALSO: ’انسانی مذبح خانے‘ کے نام سے معروف اسد حکومت کے صيدناياجیل کے قیدیوں کی دلدوز کہانیاں

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے مختلف شامی رہنماؤں کی حمایت کریں کہ وہ اکھٹے ہوں اور اقتدار کی ہموار منتقلی کی ضمانت دے سکیں۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئیں ہیں)