نوشہرہ میں نو سالہ بچی جنسی زیادتی کے بعد قتل

قصور میں آٹھ سالہ بچی زینب کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعے کے بعد سے عام لوگوں اور حکام کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو)

پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے البتہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے علاقے میں سیمپلز اکھٹے کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کلاں کے علاقے خاتو خیل میں نو سالہ بچی کو نامعلوم ملزمان نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا ہے۔

ملزمان بچی کی لاش کو باجوڑ قبرستان کے نزدیک پھینک کر فرار ہو گئے۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جب کہ اہلِ علاقہ نے ملزمان کی فوری گرفتاری کے لیے احتجاج کیا ہے۔

پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش اور ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔

ڈی آئی جی مردان ریجن محمد علی خان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ڈی پی او نوشہرہ کی سربراہی میں نو افسران پر مشتمل تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو سائنسی بنیادوں پر واقعے کی تفتیش کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے البتہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے علاقے میں سیمپلز اکھٹے کر رہے ہیں۔

واقعے کی تفصیل ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسف زئی ہفتے کو مردان ریجن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ہمراہ متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے اور ان سے اظہارِ تعزیت کیا۔

اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مسئلہ دہشت گردی سے بھی بڑا ہے جس کی روک تھام کے لیے ان کے بقول خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ بچی کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور ملزمان کو گرفتار کرکے کڑی سزا دی جائے گی۔

شوکت یوسف زئی نے متاثرہ خاندان کو حکومت کی طرف سے وکیل فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا۔

خیبر پختونخوا میں بچوں پر جنسی تشدد کا رواں ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 25 دسمبر کو ضلع ایبٹ اباد کی تحصیل حویلیاں میں بھی ایک تین سالہ بچی کو نامعلوم ملزمان نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا تھا جس کے بعد شہر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں حالیہ چند برسوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر پنجاب کے شہر قصور میں آٹھ سالہ بچی زینب کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعے کی ذرائع ابلاغ میں تفصیلی کوریج کے نتیجے میں عام لوگوں اور حکام کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی ہے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔