ایران کے خلاف امریکی تعزیرات کے معاملے پر ترکی کی بدلتی سوچ

فائل

ترکی نے ایران کے خلاف سخت گیر امریکی مؤقف پر نکتہ چینی کی ہے، جب کہ ایران کے خلاف امریکی تعزیرات کے نفاذ میں ترکی کا تعاون اہمیت کا حامل خیال کیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ایک نئی محاذ آرائی جنم لے رہی ہے۔

ترک وزیر خارجہ مولود چلوش اولو نے جمعے کے روز ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے، انادولو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ایران کے خلاف تعزیرات پر عمل درآمد سارے خطے پر منفی اثر ڈالے گا، جو کہ انتہائی خطرناک امر ہوگا‘‘۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کے ایک اعلیٰ مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’’ترکی صرف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو نافذ کرے گا، کوئی اور تعزیرات نہیں۔ ترکی دیگر ملکوں کے ایجنڈے کے لیے استعمال نہیں ہوگا‘‘۔

اس سال کے اوائل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت معاشی تعزیرات عائد کرنے کا عہد کیا، جب اُنھوں نے امریکہ کو ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے بین الاقوامی سمجھوتے سے الگ کرنے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویسے تو ترکی اور ایران تاریخی طور پر علاقائی حریف رہے ہیں، ترکی کو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں امریکہ اور ایران کی کسی محاذ آرائی میں اسے نہ گھسیٹا جائے۔

سنان اولگن استنبول میں قائم آدم تھنگ ٹینک سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ترکی کی ایران کے ساتھ سرحد ملتی ہے، کئی صدیوں سے اُس کے ایران کے ساتھ تعلقات مشکل کا شکار رہے ہیں‘‘۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ساتھ ہی، ترکی کو پتا ہے کہ اُسے ایران کے ہمسائے کے طور پر رہنا ہے، اور وہ خطے میں ایران کے کردار کو تسلیم کرتا ہے؛ اس لیے، وہ ایران اور امریکہ کے مابین کسی تنازع میں فریق بننا نہیں چاہتا‘‘۔

ترک ایرانی تعلقات کو اکثر ’تعاون اور مخالفت‘ کا مرغوبہ قرار دیا جاتا ہے۔

توانائی کے وسائل سے محروم ترکی کا ایران کے تیل پر دارومدار رہتا ہے اور وہ ایران کی قدرتی گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ لیکن اس ہفتے، امریکی پالیسی منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر، برائن ہوک نے کہا ہے کہ وہ کاروباری ادارے جو ایران کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اُن کو لائنس میں نرمی نہیں دی جاسکتی۔