انجلینا جولی جنسی تشدد کے خلاف 'نیٹو' کے ساتھ کام کرنے پر رضامند

انجلینا جولی نیٹو کے صدر دفتر میں پریس کانفرنس کر رہی ہیں۔

انجلینا جولی نے روہنگیا خواتین اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں عالمی ردِعمل کو ناکافی بھی قرار دیا۔

ہالی وڈ کی میگا اسٹار اور اقوامِ متحدہ کی خصوصی سفیر برائے مہاجرین انجلینا جولی نے کہا ہے کہ وہ جنسی تشدد کے خلاف نیٹو کے فوجی اتحاد کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ وہ فوجی نہیں ہیں لیکن وہ انسانی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے نیٹو مشن میں شمولیت اختیار کررہی ہیں۔ انہوں نے روہنگیا خواتین اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں عالمی ردِعمل کو ناکافی بھی قرار دیا۔

اردن میں شامی مہاجرین کے کیمپ کا دورہ کرکے برسلز پہنچنے کے بعد انجلینا جولی نے نیٹوکے ہیڈکوارٹرز میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹالٹن برگ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جنگ اور شورش زدہ علاقوں میں زنا بالجبر کو فوجی یا سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ برما سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ دس سال کی عمر کی روہنگیا بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اوردنیا اس پر خاموش ہے۔

ان کے بقول، "مجھے اس عالمی ردِ عمل پر غصہ ہے۔ ہم جتنا اور جس طرح بھی اس سب کو روکنے کے لیے کرسکتے ہیں، ہمیں کرنا چاہیے۔ یہ سب بہت تشویش ناک ہے۔"

میڈیا رپورٹس کے مطابق انجلینا جولی کا کہنا تھا کہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو تشویش ناک ہے۔ مرد اور لڑکے بھی جنسی تشدد سے اتنے ہی متاثر ہو رہے ہیں جتنا خواتین اور لڑکیاں۔

چھ بچوں کی ماں اور مہاجرین اور خواتین کے حقوق کی علم بردار انجلینا جولی کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ وہ زیادتی کا شکار ہونے والوں سے ملی ہیں۔ ان پر بیتنے والی کہانیاں ہولناک ہیں لیکن اس صورتِ حال پر دنیا کے مختلف ملکوں کی حکومتوں کے ردِ عمل کو ان کے بقول مایوس کن ہی کہا جاسکتا ہے۔

جولی نے اس توقع کا اظہار کیا کہ نیٹو اپنے رکن ممالک اور دنیا کے دوسرے ممالک کی افواج کو تشدد کا شکار ملکوں میں خواتین سے زیادتیوں کے خلاف ٹریننگ کرائے گا اور فوج میں خواتین کے کردار کو مزید بڑھائے گا۔

نیٹو کے رکن ممالک کی تعداد 29 ہے اور دفاعی اتحاد کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جنگ کے دوران ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کا نہ صرف نوٹس لیا جائے گا اور ملوث افراد کو سزا دی جائے گی بلکہ اس عام خیال کو بدلنے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ ریپ کسی بھی تنازع کا ایسا پہلو ہے جسے رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔