'امن کے لیے بات چیت نہ کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی'

پاک بھارت وزرائے اعظم (فائل فوٹو)

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ اگر اس خطے میں امن آنا ہے تو وہ ایک مہذب طریقے سے آئے گا اور "وہ اس طرح کہ دونوں ملکوں کو بات کرنا ہوگی۔"

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بحالی کی امید کو رواں سال کے اوائل میں جس واقعے سے دھچکہ لگا تھا اس کی بازگشت 2016ء کے اختتامی ہفتوں میں بھی سنائی دے رہی ہے جس میں بھارت کی ایک اعلیٰ تفتیشی ایجنسی کی طرف سے دو جنوری کو پٹھان کوٹ فضائی اڈے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی تحقیقات کو سمیٹتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور ان کے دیگر تین ساتھیوں پر عائد کیا گیا ہے۔

پیر کو بھارت کی نیشنل انویسٹیگیش ایجنسی کی طرف سے پیش کی گئی فردجرم کے تناظر میں وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کا یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستان کو مسعود اظہر کو گرفتار کر کے بھارت کے حوالے کرنا چاہیے۔

پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر اس فرد جرم اور بیان پر کوئی ردعمل تو تاحال سامنے نہیں آیا لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تازہ بھارتی اقدام سے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید بگاڑ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ یہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک اور کوشش ہے۔

"یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی انھوں نے حافظ سعید اور مسعود اظہر کی گرفتاری اور حوالگی کا مطالبہ کیا تھا، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کس قانون کے تحت یہ کر سکتا ہے۔ اگر پاکستانی کی ایف آئی اے کا سربراہ یہ کہے ہمیں فلاں بندہ ہندوستان سے درکار ہے تو کیا ہندوستان کی حکومت اسے پاکستان کے حوالے کرے گی، اگر وہ (بھارتی عہدیدار) واقعی سمجھتے ہیں کہ تحقیقات میں کوئی چیز ثابت ہوئی ہے تو اس کا کوئی طریقہ کار ہے۔"

دو جنوری کے اس واقعے کے بعد پاکستان نے بھارت کی طرف سے موصول ہونے والی معلومات کی روشنی میں اپنے ہاں کارروائی کی تھی اور مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں بھی لیا گیا تھا۔

لیکن پٹھانکوٹ فضائی اڈے پر حملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پاکستانی ٹیم کو بھارت میں محدود رسائی دیے جانے اور اطلاعات کے مطابق مکمل تعاون نہ کیے جانے کے سبب تحقیقات میں اس جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان بھی کہتے ہیں کہ دباؤ کی یہ بھارتی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہو گی اور امن کے لیے ایسے بیانات سودمند نہیں ہیں۔ "امن کے لیے (بات چیت نہ کرنے کی) پالیسی ترک کرنا ہوگی۔"

پروفیسر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کو سلجھایا جائے۔

"اس طرح کے بیانات سے کشیدگی بڑھے گی کیونکہ بھارتی میڈیا اس قسم کے بیان کی بنیاد پر ایک مہم شروع کرے گا اور اس سے تعلقات جو پہلے ہی خراب ہیں وہ مزید خراب ہوں گے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو سلجھایا جائے۔"

شمشاد احمد خان پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کا خاکہ تیار کرنے والوں میں شامل ہیں، وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کی طرف آئیں کیونکہ بات چیت ہی مسائل کا واحد حل ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں دونوں ملکوں نے جامع مذاکرات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا

"اگر اس خطے میں امن آنا ہے تو وہ ایک مہذب طریقے سے آئے گا وہ اس طرح کہ دونوں ملکوں کو بات کرنا ہوگی۔ تعمیری انداز میں رابطے کرنا ہوں گے۔۔۔جب میں نے جامع مذاکرات کا خاکہ تیار کیا تھا تو میرے ذہن میں بات بڑی واضح تھی کہ ہمارا کوئی بھی معاملہ کسی ایک واقعے کے طور پر حل نہیں ہوگا ہمیں ایک دیرپا اور مستحکم عمل کی ضرورت ہے اور اس طرح ہم یکے بعد دیگر اپنی رکاوٹیں دور کرتے جائیں گے۔"

مسعود اظہر کی جیش محمد نامی تنظیم کو اقوام متحدہ اور امریکہ نے 2001ء میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا جس کے بعد اس تنظیم پر پاکستان میں بھی 2002ء میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

بھارت اپنے ہاں دہشت گرد کارروائیوں پر پاکستان کے غیر ریاستی عناصر کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم اسلام آباد ان الزامات اور دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔