واشنگٹن کے 'ووڈرو ولسن سینٹر' کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مشترکہ حکومت کے قیام کے لئے صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والا شراکت اقتدار کا معاہدہ اس شادی کی طرح ہے جو دونوں فریقوں نے اپنی اپنی سہولت کے پیش نظر کیا ہے۔
ان کے بقول یقیناً عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے سوچا ہوگا کہ اگر انہوں نے کسی معاہدے پر اتفاق نہ کیا تو کہیں افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد بند نہ ہو جائے۔
مگر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’’اس معاہدے سے افغان عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ وہ ووٹنگ کے دن گھروں سے اس لئے نہیں نکلے تھے کہ ان کے پسندیدہ امیدوار اقتدار کو آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیں۔‘‘
مائیکل کوگل مین کے خیال میں افغانستان کی مشترکہ حکومت اتنا عرصہ نہیں چل سکے گی جتنا کہ چلنا چاہئے، یعنی اگلے افغان انتخابات تک۔
’’شروع میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے زبردست سیاسی حریف ہیں۔ دونوں کا ووٹ بینک الگ الگ ہے۔ یہ امکان بھی موجود رہے گا کہ اشرف غنی اس معاہدے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، جس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ وہ یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر اپنے استحقاق سے زیادہ اختیارات پر قبضہ کر لیں، جس سے مسائل پیدا ہونگے۔‘‘
نئی افغان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
کوگل مین کے بقول، ’’پاکستان شروع سے ہی کئی وجوہات کی بنا پر عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں اشرف غنی کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ اس لئے یقیناً پاکستان کافی خوش ہوگا۔ تاہم افغانستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، پاکستان کی افغان پالیسی اسی قسم کی رہے گی، جو ضروری نہیں کہ افغانستان میں استحکام اور امن کا باعث بھی ہو۔ کیونکہ پاکستان ضروری سمجھتا ہے کہ طالبان جیسے گروہوں کے پاس افغانستان میں مشکلات پیدا کرنے کی زیادہ گنجائش موجود رہے تاکہ بھارت کو افغانستان میں اپنی موجودگی کو توسیع دینے سے روکا جا سکے۔"
افغانستان کے سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی نے بھی گزشتہ روز اپنے الوداعی خطا ب میں افغانستان میں امن قائم نہ ہونے پر امریکہ اور پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا تھا۔
مائیکل کوگل مین، جہاں ایک طرف امریکہ کے خلاف حامد کرزئی کے الزامات کو ناقابل یقین قرار دیتے ہوئے انہیں ’’اتار چڑھاؤ‘‘ کا شکار شخصیت کا حامل قرار دیتے ہیں، وہیں پاکستان کے خلاف کرزئی کے الزامات کو قابل بھروسہ سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول، ’’پاکستان کے بارے میں حامد کرزئی جو کہتے ہیں وہ ایک پیچیدہ کہانی ہے۔ یقینی طور پر پاکستان کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے مختلف سطحوں پر ایسے جنگجو گروہوں کو مدد فراہم کی جاتی رہی ہے، جو افغانستان پر حملے کرتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان وہ دو بڑے جنگجو گروہ ہیں، جن سے افغانستان کو خطرہ ہے اور دونوں کے پاکستان میں روابط ہیں۔ اس لئے میری یہ سوچ ہے کہ کرزئی کے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات امریکہ پر لگائے الزامات سے زیادہ قابل بھروسہ ہیں۔"
لیکن پاکستان ماضی میں متعدد بار ان الزامات کی تردید کرچکا ہے کہ وہ افغانستان میں گڑبڑ پیدا کرنے والے عناصر کی مدد کرتا ہے۔