سال 2019 پاکستان میں پولیو کے حوالے سے مایوس کن ثابت ہوا

فائل فوٹو

پاکستان کے مختلف علاقوں ميں رواں سال پولیو کے 117 کيسز سامنے آئے ہیں جو گزشتہ سال کی نسبت کئی گُنا زيادہ ہيں۔ حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ سال کے اختتام تک پوليو کيسز ميں نماياں کمی لے آئيں گے ليکن پولیو کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

کیسز میں اضافے کے سبب انسدادِ پولیو پروگرام پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس ضمن میں وزيرِ اعظم کے سابق فوکل پرسن برائے انسدادِ پوليو بابر بن عطا بھی عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ايک دہائی سے پاکستان ميں تين مختلف سياسی پارٹيوں کی حکومت رہی ہے اور تمام حکومتوں نے پوليو کے بروقت خاتمے کے دعوے کیے۔ ليکن پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ ہوتا رہا ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے علاوہ پاکستان کے تمام پڑوسی ممالک بشمول بھارت، پوليو کی وبا سے جان چھڑا چکے ہيں۔

پاکستان میں 2010 سے 2019 تک ریکارڈ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد کچھ یوں ہے۔

پاکستان میں گزشتہ دس برسوں کے دوران رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز

تعداد

سال

1442010
1982011
582012
932013
3062014
542015
202016
82017
122018
1172019

ماہرين پاکستان کی صورتِ حال کو باقی دنيا سے الگ قرار ديتے ہيں۔ ڈاکٹر نديم جان صوبہ خيبر پختونخوا ميں بطور ٹيکنيکل فوکل پرسن فرائض انجام دے رہے ہيں۔ ان کے مطابق انہوں نے تقريباً 10 ملکوں ميں صحت سے متعلقہ اداروں ميں کام کيا ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ندیم جان نے کہا کہ پوليو کے خاتمے کے لیے پاکستان جيسا عزم پوری دنيا ميں نہیں ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے مسائل پوری دنيا سے مختلف ہيں۔

انہوں نے کہا کہ بہت لوگوں میں پوليو سے متعلق غلط فہمياں پائی جاتی ہيں اور ايک لمبے عرصے تک امن و امان کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے بہت سارے علاقوں تک رسائی کا مسئلہ بھی تھا۔

ياد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان کے سابق قبائلی علاقہ جات مسلسل دہشت گردی کی زد ميں رہے ہیں اور پوليو ورکرز کے لیے ان علاقوں تک رسائی اور ويکسینیشن ناممکن تھی جس کی وجہ سے پولیو وائرس میں مزید اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر نديم کہتے ہیں کہ پوليو کيسز زیادہ تر ان علاقوں سے آتے ہيں جہاں ويکسينیشن کم ہو پاتی ہے۔ ليکن ان کے بقول حکومت نے اس کے تدارک کے لیے نئی حکمتِ عملی بنائی ہے جس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دسمبر کی پولیو مہم اس کا واضح ثبوت ہے جس ميں تمام مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے ہيں۔ ان کے مطابق پاکستان کے تمام ادارے متفق ہيں کہ پوليو کا خاتمہ قومی مسئلہ ہے اور تمام ادارے اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہيں۔

فائل فوٹو

غیر سرکاری فلاحی تنظیم روٹری انٹرنیشنل کے چيئرمين پاکستان ڈویژن عزيز ميمن کہتے ہیں کہ پولیو وائرس کا جب تک مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا، وبا کے پھیلنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ پولیو مہم کے حوالے سے سوشل ميڈيا بھی ایک بڑا چيلنج ہے جس کے ذريعے کئی غلط فہمياں جنم ليتی اور پھیلائی جاتی ہیں۔

عزيز ميمن بھارت میں پولیو وائرس کے خاتمے سے متعلق کہتے ہیں کہ جب بھارت نے پوليو کا ملک سے خاتمہ کیا تو اس وقت واٹس ايپ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان ميں سوشل ميڈيا کا بہت غلط استعمال ہو رہا ہ اور اس سے پوليو مہم بھی متاثر ہو رہی ہے۔

عزيز ميمن کے مطابق ديہی علاقوں ميں مذہب کی بنياد پر پولیو مہم سے متعلق غلط پروپیگنڈا کيا جاتا ہے۔ اس لیے وہ علمائے کرام کے ساتھ مل کر اس مرض کے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

مفتی صفی اللہ خٹک دسمبر 2019 کی انسداد پوليو مہم ميں پيش پيش رہے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے ضلع تورغر کے رہائشیوں کو ويکسين کے بارے ميں غلط فہميوں سے آگاہ کيا۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے مفتی صفی اللہ نے انتظاميہ پر بھی کڑی تنقيد کی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں میں پولیو مہم سے متعلق پائی جانے والی غلط فہميوں کا تدارک کرنا حکومت کا کام تھا۔

پوليو کوآرڈينيٹر برائے ايمرجنسی آپريشن سينٹر، ڈاکٹر محمد صفدر کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پولیو کیسز میں يقيناً بے پناہ اضافہ ہوا ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اليکشن کے دوران حکومت کی تمام تر توجہ دوسرے انتظامی امور پر لگ جاتی ہے جس کا براہ راست اثر پوليو کيسز پر بھی پڑتا ہے۔ ان کے نزدیک پولیو میں اضافے کی دوسری سب سے نماياں وجہ ويکسينیشن کے خلاف منظم انداز ميں کیا جانے والا پروپيگنڈا ہے۔

ياد رہے کہ اپريل 2019 ميں پشاور کے نواحی علاقے ماشو خيل ميں ايک منظم پروپيگنڈے کی وجہ سے ملک بھر ميں پوليو مہم رک گئی تھی۔ جس کے بعد پوليو کيسز ميں بھی اضافہ ديکھا گیا اور پوليو ورکرز کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوا تھا۔

2012 سے اب تک پوليو ٹيموں پر مختلف حملوں ميں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جن ميں پوليو ورکرز کے علاوہ سيکیورٹی فورسز کے اہلکار اور عام شہری بھی شامل ہيں۔

ڈاکٹر صفدر کے مطابق جب پوليو کيسز کی تعداد بڑھنے لگی تو انتظامیہ نے وجوہات کا جائزہ لینے کے بجائے نے پوليو ورکرز پر دباؤ بڑھا ديا اور لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ پوليس کی حراست سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری والدین نے بچوں کے انگوٹھوں پر جعلی مارکر سے نشانات لگانا شروع کر دیے۔

فائل فوٹو

ڈاکٹر صفدر نے انسداد پولیو کے منصوبے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اس پروگرام کو غير سياسی بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 2020 کے آغاز سے ہی ملک بھر ميں انسداد پوليو کی مہم شروع کر رہا ہے جس کے اس وائرس کے خاتمے میں واضح کامیابی کی توقع ہے۔

ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ جون 2020 کے بعد ملک ميں پوليو کيسز کی تعداد ميں نمایاں کمی ديکھنے کو ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیو وائرس کا پاکستان سے مکمل خاتمہ 2021 ميں ممکن ہو پائے گا۔