پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے سرگرم استاد عمار علی جان سے خصوصی گفتگو پیش خدمت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوال: طلبہ یونینز پر پابندی کو پینتیس سال ہو چکے ہیں۔ ان کی بحالی کے لیے احتجاج کا خیال اتنی تاخیر سے کیوں آیا؟
عمار علی جان: کوششیں تو بہت عرصے سے ہو رہی تھیں۔ گزشتہ تیس پینتیس سال میں یونیورسٹیوں میں بہت سختی تھی۔ معمولی مسائل پر بھی بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ جیسے حال میں سندھ یونیورسٹی میں ہوا کہ پانی کا مسئلہ اٹھانے والے طلبہ پر بغاوت کا مقدمہ بنا دیا گیا۔ جب جب لوگ بولنا شروع کرتے تھے تو انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرتی تھی، کیونکہ یہاں انتظامیہ کا احتساب کوئی نہیں کر سکتا۔ ان کے ساتھ سیکورٹی حکام بھی ہیں، ادارے بھی ہیں۔ طلبہ غیر منظم تھے اور انھیں منظم ہونے کا موقع بھی نہیں دیا جا رہا تھا۔ پچھلے ایک سال میں جو نیا کام ہوا وہ یہ کہ موجودہ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی۔ پینتالیس ارب کا بجٹ تیس ارب کا رہ گیا۔ جو سسٹم وینٹی لیٹر پر تھا، اس کا جنازہ نکل گیا۔ ہاسٹل کا مسئلہ ہے، پانی کا مسئلہ ہے، فیس بڑھ گئی ہے، وظیفے ختم کر دیے گئے ہیں۔ جو بحران تھا، اس میں شدت آگئی۔ بحران جب بڑھ جاتا ہے تو اس کی مزاحمت بھی نظر آتی ہے۔ جو احتجاج ہو رہا ہے، یہ اس بحران کی علامت ہے جو تعلیمی شعبے میں موجود ہے۔
سوال: یہ تحریک کس نے شروع کی ہے، اس کے پیچھے کون ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت آپ کی حامی ہے؟
عمار علی جان: اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ یہ میرے طلبہ ہیں جنھیں میں پڑھاتا رہا ہوں۔ بہت سے نئے لوگ ہیں۔ یہ بالکل خودرو اور آزاد تحریک ہے۔ یہ طلبہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے متحرک ہیں۔ لاہور میں کبھی اسٹڈی سرکل کرتے ہیں۔ کبھی مشال خان ڈے مناتے ہیں۔ دو سال سے اس کی برسی منا رہے ہیں۔ پانی کے مسئلے پر، سموگ کے مسئلے پر، سماجی مسائل پر انھوں نے آواز اٹھائی ہے۔ دوسرے شہروں میں بھی یونیورسٹیوں میں گزشتہ دو سال کے دوران بہت ہلچل رہی ہے۔ کیمپسز میں کافی بے چینی پائی جاتی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ ان سب نے اپنے آپ کو منظم کیا ہے۔ نہ صرف لاہور بلکہ ملک گیر سطح پر آزاد طلبہ تنظیموں نے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نام سے اتحاد بنا لیا۔ ان کے پیچھے کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ یہ قطعی طور پر آزاد طلبہ کا گروپ ہے۔ انھوں نے مطالبات کا چارٹر بنایا ہے اور میرے خیال میں ہر طالب علم اور استاد کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔
سوال: اسلامی جمعیت طلبہ کے بھی وہی مطالبات ہیں جو آپ کے۔ لیکن وہ الگ تحریک چلا رہے ہیں اور آپ الگ۔ کیا اس بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ آپ اور وہ ایک نکاتی ایجنڈے پر مل کر تحریک چلاتے؟
عمار علی جان: اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی میں پندرہ سے بیس تنظیمیں ہیں۔ وہ ایک خاص نقطہ نظر کی حامل ہیں۔ آپ ان طلبہ رہنماؤں کے انٹرویوز دیکھیں، ان کی گفتگو سنیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ جو بھی ان کے مطالبات سے متفق ہے، اس کا ریلی میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ اگر جمعیت یا کوئی اور تنظیم الگ احتجاج کر رہی ہے تو وہ بھی اچھی بات ہے۔ الگ ہو کر آواز اٹھانا کوئی غلط بات نہیں۔ کل کو یونین کا الیکشن لڑنا ہے، ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ یہ کوئی اتنی بری چیز نہیں ہے۔ اگر ایک نکتے پر لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں، طلبہ کے لیے بات کر رہے ہیں، یہ لوگ بھی کر رہے ہیں اور وہ بھی کر رہے ہیں؛ تو بالکل ٹھیک ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی ایک نکتے پر متحد نہیں ہو سکتیں۔ ان میں بھی اختلافات ہوتے ہیں۔ تحریکوں میں اختلافات ہوتے ہیں۔ بنیادی مطالبے پر تمام طلبہ تنظیمیں متفق ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں بھی اتفاق کر رہی ہیں۔ سندھ میں قرارداد منظور ہوئی ہے اور پنجاب میں بھی قرارداد لا رہے ہیں۔ میڈیا میں بھی سب کہہ رہے ہیں کہ ہم اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ اب یہ انتظار کرنا کہ جمعیت اور اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے تعلقات بہتر ہوں تو یونینز بحال کریں گے، ایسی بات ہے کہ جب تک مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، ہم پارلیمان کو معطل کر رہے ہیں۔ نظریاتی اختلاف برقرار رہتا ہے اور وہ جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن بنیادی مطالبہ مشترک ہے اور وہ مناسب ہے۔
سوال: طلبہ تنظیمیں ایک دوسرے سے لڑتی بھڑتی رہتی ہیں۔ یونینز پر پابندی ہٹانے سے تشدد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع نہیں ہو جائے گا؟
دیکھیں، تشدد تو اس وقت ہو رہا ہے یونیورسٹیوں میں۔ وہ سلسلہ شروع نہیں ہوگا، وہ جاری ہے۔ مشال خان کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ بھی مثالیں ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا چکا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہاں کتنا تشدد ہوتا ہے۔ حال میں سندھ یونیورسٹی میں لڑائیاں ہوئی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکورٹی کے نام پر طالبات کو بلیک میل کرتے رہے ہیں، ہراسمنٹ ہوتی رہی ہے۔ تشدد تو ہے، ذہنی بھی ہے، جسمانی بھی ہے، جنسی بھی ہے لیکن اس پر اجارہ داری صرف انتظامیہ کی ہے۔ یونیورسٹیوں میں سیاست پر پابندی نہیں ہے۔ وائس چانسلر سے لے کر کلرک تک کا تقرر سیاسی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پابندی صرف مزاحمتی سیاست اور طلبہ کی سیاست پر ہے۔ پاکستان کی قومی سیاست میں طلبہ شریک ہیں، سیاسی جماعتیں انھیں استعمال کرتی ہیں۔ لیکن صرف جلوس نکالنے کے لیے، جلسہ گاہ بھرنے کے لیے، فنڈنگ کرنے کے لیے یا سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کرنے کے لیے۔ طلبہ جب اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ آپ پڑھائی پر توجہ دیں۔ سیاست میں نہ آئیں۔ میرا خیال ہے کہ تشدد کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ کی آواز نہیں سنی جا رہی۔ اور پابندی لگانے سے حاصل کیا ہوا؟ آپ کی جامعات دنیا کی بدترین یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ دنیا چھوڑیں، آپ اپنے خطے میں سب سے پیچھے ہیں۔ آپ کیا امن امن کہتے رہتے ہیں۔ آپ کا امن ناانصافی کی بنیاد پر قائم ہے۔ ابھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں انتظامیہ نے سات ملین ڈالر کا فنڈ کھا لیا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی ایسا ہوا ہے۔ جس یونیورسٹی کو آپ دیکھیں، وہاں یہ مسائل ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ مسئلہ طلبہ نہیں ہیں، انتظامیہ ہے جس کا احتساب نہیں ہوتا۔ چاہے وہ یونیورسٹی کی انتظامیہ ہو یا ملک کی ہو۔ اس کی طاقت توڑنے کی ضرورت ہے۔
سوال: ماضی میں جب پوری دنیا میں طلبہ تحریکوں کا زور تھا، ساٹھ کی دہائی میں، ستر کی دہائی میں تو پاکستان میں بھی اس کا اثر تھا۔ اب دنیا میں اس طرح طلبہ تحریکیں نہیں چل رہیں۔ پھر آپ ہوا کے مخالف رخ کیسے چلیں گے؟
عمار علی جان: یہ دنیا سے ہٹ کے، کٹ کے بالکل نہیں ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مزاحمتی تحریکیں چل رہی ہیں اور ان میں نوجوان سرگرم ہیں۔ امریکہ میں برنی سینڈرز کے اردگرد پوری تحریک نوجوان چلا رہے ہیں۔ انگلینڈ میں جیریمی کاربن کی تحریک ہے۔ بھارت میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ مودی سرکار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جنوبی امریکا میں چلی میں بہت بڑی تحریک چل رہی ہے۔ وہاں جنرل پنوشے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تحریک چلی ہے اور اس میں نوجوان پیش پیش ہیں۔ لبنان اور عراق میں کرپشن کے خلاف تحریکیں سارے کے سارے نوجوان چلا رہے ہیں۔ پوری دنیا کے نوجوانوں میں اس وقت غصہ ہے۔ بھارتی ادیب پنکج مشرا نے اسی لیے موجودہ دور کو ایج آف اینگر یعنی غصے کا زمانہ قرار دیا ہے۔ ہم ایج آف اینگر سے گزر رہے ہیں اور نوجوانوں میں قطعی جائز غصہ ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے لیے مستقبل میں کیا ہے۔ پاکستان تو اس معاملے میں ابھی پیچھے ہے۔ دوسرے ممالک نوجوانوں کی سیاست میں آگے ہیں۔
سوال: ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے، پارلیمان قانون سازی نہیں کر پا رہی، معیشت ڈوبی ہوئی ہے اور خزانہ خالی ہے، آپ کے مطالبات کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں؟ آپ کی تحریک سے انتشار جنم لے سکتا ہے۔ آپ ان ہنگامی حالات میں کیا حاصل کر سکیں گے؟
عمار علی جان: یہاں یونیورسٹیوں میں، فیکٹریوں میں کارخانوں میں ہمیشہ ہی ہنگامی حالات رہتے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں۔ عام لوگوں کے لیے ایمرجنسی ہی رہتی ہے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ ہمارے مطالبات کا تعلق براہ راست قومی سیاست سے نہیں ہے۔ طلبہ و طالبات سیدھی بات کر رہے ہیں کہ آپ نے تعلیم کا بجٹ کیوں کم کیا؟ پندرہ ارب روپے کیسے گھٹا دیے؟ آپ کو کوئی اور چیز نہیں ملی؟ پی ٹی آئی نوجوانوں کے ووٹ لے کر حکومت میں آئی اور اس نے پہلا کام یہ کیا کہ تعلیمی بجٹ کم کر دیا۔ اس کے برعکس بڑے بڑے اداروں کو ٹیکس چھوٹ دے دی۔ جاگیرداروں کو ٹیکس چھوٹ میں کمی نہیں کی۔ دفاعی بجٹ کی طرف نہیں دیکھا۔ آپ کو کٹوتی کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ اتنے کمزور لوگ ہیں جو اپنے حقوق کے لیے لڑ نہیں سکتے۔
انتشار اس وقت موجود ہے۔ حکومت بار بار کہتی ہے کہ تحریک کے پیچھے کون ہے؟ دشمن ہو سکتے ہیں۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں، کون چاہے گا کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے اچھے ہوجائیں، تعلیم مفت ہو، معیار اعلیٰ ہو، یونیورسٹیوں کی رینکنگ بہتر ہو جائے۔ دشمن کیوں چاہے گا؟ یہ تو محب وطن ہی چاہیں گے۔ تعلیمی شعبے میں حقوق مانگنے سے بھی اگر لگ رہا ہے کہ پیچھے کوئی سازش ہے یا انتشار ہو جائے گا، حالات خراب ہوجائیں گے تو پھر انھیں صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ ہم عوام کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ یہاں بادشاہت ہے اور ایسے ہی چلے گا۔ لیکن، اگر ہم شہری ہیں اور اٹھارہ سال کا لڑکا وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ دے سکتا ہے، تو پھر اس کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنی نمائندگی خود کرے۔
سوال: ہم نے سنا ہے کہ ماضی میں طلبہ نے تحریکیں اس لیے چلائیں، یونینز اس لیے کارآمد ثابت ہوئیں کہ صرف طلبہ نہیں، ان کے اساتذہ بھی ان میں سرگرم ہوتے تھے۔ وہ طلبہ کی معاونت کرتے تھے۔ کیا آج ایسے اساتذہ موجود ہیں؟ ایک عمار علی جان ہیں، کیا مزید لوگ ہیں؟
عمار علی جان: جی مجھ سے بہت بہتر اساتذہ موجود ہیں۔ پروگریسو اکیڈمک کلیکٹو بنا ہوا ہے جو طلبہ کی رہنمائی کر رہا ہے۔ اساتذہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مستقبل طلبہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ طلبہ کو دشمن کے طور پر دیکھنے کے بجائے، انھیں امن و امان کا مسئلہ قرار دینے کے بجائے ہم انھیں اپنا ساتھی سمجھتے ہیں۔ لاہور میں اساتذہ نے مختلف یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے طلبہ کے لیے بات کی تھی۔ انتظامیہ نے کہا کہ اگر آپ نے طلبہ کو تھوڑے سے حقوق دیے تو وہ آپ لوگوں ہی سے بدتمیزی کریں گے۔ میں نے اگر کسی طالب علم کو چار سال پڑھایا ہے اور پھر بھی مجھے خدشہ ہے کہ وہ میرے ساتھ بدتمیزی کرے گا تو اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ اس کے نہیں، میرے ساتھ ہے۔ میں اسے کیا پڑھاتا رہا ہوں۔ انتظامیہ بھی کیسے یونیورسٹی کھول کر بیٹھی ہوئی ہے جو سالانہ چار چار لاکھ روپے فیس لیتی ہے اور پھر بھی سمجھتی ہے کہ وہ جانور پیدا کر رہی ہے۔ ایسا ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ کا احتساب ہونا چاہیے۔ ہم اگر طلبہ پر اعتماد کریں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم خود پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہم جو تعلیم دے رہے ہیں اس کے بعد جو نوجوان یونیورسٹی سے نکلیں گے، وہ بہتر انسان ہوں گے۔ وہ محب وطن ہوں گے۔ وہ معقول بات کریں گے۔ وہ اچھے شہری ہونے کا حق ادا کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا احتساب ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ انتظامیہ کی بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ امن و امن کا مسئلہ نہیں ہے۔ طلبہ ہمارا مستقبل ہیں اور ہمیں بہت شائستگی کے ساتھ ان سے بات کرنا ہوگی۔