جب امجد ہمارے پروگرام میں آئے تو انہوں نے روہتکی زبان میں صوفی کلام سنا کر ہم سب کا دل موہ لیا تھا۔ لیکن، چند بے رحم گولیوں نے اس خوبصورت آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔
ایک ایسے شہر کے لئے بھی جہاں قتل، دہشت گردی، اغوا اور ایسے ہی نامعلوم کتنے جرائم کی خبریں لوگ سپاٹ چہروں کے ساتھ اس طرح سن لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہاں ایک معصوم فنکار کے انتہائی بے رحمی سے قتل نے پورے شہر کے ضمیر کو لگتا ہے کہ جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔۔۔ شائد اس لئے کہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ صابری خاندان کے ہونہار فرزند، امجد فرید صابری کو کیوں سرِ عام گولیاں مار کر کراچی کی ایک بارونق سڑک پر ہلاک کر دیا گیا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج کل کے پاکستان میں صوفیانہ کلام گانا کئی لوگوں کو برہم کر دیتا ہے۔ اور پھر آپ کو بھی بہت سے واقعات یاد آتے ہیں۔ دانشوروں، سرگرم کارکنوں اور فنکاروں کی ہلاکتیں، جلاؤ گھیراؤ، صوفی شاعر کے مزار پر توڑ پھوڑ۔۔۔ بہت سی ہستیاں ہیں جو نامعلوم گولیوں اور بموں کا نشانہ بنیں۔ یہ کونسا غصہ ہے۔ کونسی نفرت ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی؟
پہلے والی نسلوں نے قوالیاں امجد صابری سے نہیں بلکہ ان کے والد غلام فرید صابری چچا مقبول صابری سے سنی تھیں۔ کہتے ہیں کہ زمانہ آگے بڑھتا ہے مگر اس نسل نے تو وقت کو پیچھے جاتے ہی دیکھا ہے۔ ان تاریک ترین زمانوں میں، جب اختلاف کرنے والوں کی نسلیں ختم کردی جاتی تھیں، زبانیں کاٹ دی جاتی تھیں اور انگلیاں قلم کر دی جاتی تھیں۔
امجد تو پرکھوں کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے تھے جس کا آغاز ’کلیان‘ نامی گاؤں میں ان کے دادا نے کیا تھا۔ جب امجد ہمارے پروگرام میں آئے تو انہوں نے روہتکی میں صوفی کلام سنا کر ہم سب کا دل موہ لیا تھا۔ لیکن، چند بے رحم گولیوں نے اس خوبصورت آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔
ہمارا پروگرام ’کچھ تو کہئے‘ ان کی خوش باش شخصیت کا کچھ احساس آپ تک پہونچاتا ہے۔ سننے کے لئے نیچے دیے ہوئے لنک پر کلک کیجئے:
Your browser doesn’t support HTML5