امریکی عوام کے لیے یہ سال اچھا ثابت نہیں ہورہا۔ ایک عوامی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی شہری گزشتہ نصف صدی میں کبھی اتنے ناخوش نہیں تھے جتنے اب ہیں۔
یہ سخت لیکن حیران نہ کرنے والے نتائج شکاگو یونیورسٹی کے ایک سروے سے معلوم ہوئے ہیں جس کا مقصد کرونا وائرس بحران میں عوامی ردعمل معلوم کرنا تھا۔ اس میں صرف 14 فیصد بالغ امریکی افراد نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ 2018 میں یہ شرح 31 فیصد تھی۔ اس سال 23 فیصد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اکثر یا کبھی کبھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
یہ سروے مئی کے آخر میں جنرل سوشل سروے کی طرز پر کیا گیا تھا۔ 1972 سے اب تک سروے ہر دوسرے سال کیا جاتا رہا ہے جس میں امریکی شہریوں کے رویوں اور رجحانات کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہے۔ اس سروے میں خود کو بہت خوش کہنے والے امریکیوں کی شرح کبھی 29 فیصد سے کم نہیں پائی گئی تھی۔
تازہ سروے کے انٹرویو سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت سے پہلے کیے گئے تھے جس کے بعد امریکہ اور دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ خدشہ ہے کہ ان حالات سے بھی امریکیوں میں، خاص طور پر سیاہ فام شہریوں میں ذہنی دباؤ اور تنہائی میں اضافہ ہوا، جو پہلے ہی کرونا وائرس بحران سے پریشان تھے۔
سروے میں وبا میں زندگی سے متعلق بھی سوالات کیے گئے۔ ان سے معلوم ہوا کہ 25 سال پہلے کے مقابلے میں اب امریکی عوام آئندہ نسل کے معیار زندگی کے بہتر ہونے کی امید کم رکھتے ہیں۔ صرف 42 فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ جب ان کے بچے ان کی عمر کو پہنچیں گے تو ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ 2018 میں یہ شرح 57 فیصد تھی۔ ماضی میں اس کی کم از کم شرح 45 فیصد تھی۔
2018 کے مقابلے میں آج دوگنا شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ تنہائی محسوس کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ کرونا وائرس کا بحران اور اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا۔ اسی لیے سماجی سرگرمیوں اور تعلقات سے مطمئن لوگوں کی تعداد میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔
دو سال پہلے 27 فیصد افراد نے بتایا تھا کہ وہ کسی کو اپنا ساتھی نہیں سمجھتے لیکن اب یہ شرح 45 فیصد ہوچکی ہے۔ پہلے 18 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں دوسروں نے چھوڑ دیا ہے۔ یہ تناسب اب 37 فیصد کو پہنچ گیا ہے جو مایوسی بڑھنے کی نشاندہی کرتا ہے۔
سروے سے پتا چلا کہ امریکی شہریوں کے اپنے خاندان کی مالی صورتحال کے بارے میں اندازوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ لوگوں کو ماضی کی طرح آج بھی یقین ہے کہ ان کا خاندان مالی طور پر آسودہ ہے اور صورتحال کا مقابلہ کرسکتا ہے۔