میں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو گرتے ہوئے دیکھا

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور یک بعد دیگرے طیارے ٹکرانے کے بعد شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ 11 ستمبر 2001

نائن الیون کے حملے کے جواب میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا.17 برس گزر جانے کے بعد افغانستان میں جنگ آج بھی جاری ہے اور اس سے جنم لینے والی دہشت گردی کے واقعات نے خطے کے ممالک کو اپنی لپیٹ لے رکھا ہے۔

آج امریکہ میں گیارہ ستمبر 2011 کے دہشت گرد حملوں کی 17 ویں برسی منائی جا رہی ہے جن میں لگ بھگ 3,000 انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔

نائن الیون کا حملہ امریکہ کی تاریخ میں 1944 میں پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کے بعد سب سے بڑا حملہ تھا جس نے امریکہ میں سلامتی کے احساس کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔

گیارہ ستمبر 2011کے دہشت گرد حملوں کے وقت نیویارک میں مقیم پاکستانیوں کا رد عمل کیا تھا اور17سال کے بعد وہ پاکستانی امریکیوں اور امریکی مسلمانوں اور دنیا بھر کے نقشے اور حالات پر اس کے اثرات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ایسے کچھ پاکستانی امریکیوں نے وائس آف امریکہ واشنگٹن سے گفتگو کی جن میں ایک ڈیمو کریٹ ملک ندیم عابد شامل تھے ۔

ندیم عابد نے نائن الیون کے المناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ گیارہ ستمبر کو جب دوسرا جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے ٹکرایا تو وہ اس وقت بروک لین برج پر تھے اور مین ہیٹن جا رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوسرے جہاز کو عمارت سے ٹکراتے ا ور پہلی بلڈنگ اور دوسری بلڈنگ کو گرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو عمارت کی بلڈنگ سے کودتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا بد ترین خواب تھا جسے وہ بھولنا بھی چاہیں تو بھول نہیں سکتے اور یہ امریکہ کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی کا بھی بد ترین لمحہ تھا جو انہیں ساری زندگی تکلیف میں مبتلا رکھے گا ۔

نیو یارک کی ایک کاروباری شخصیت اور ایک ری پبلکن حنیف اختر نے جو ان دنوں بش حکومت کی ایک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن تھے اس حملے پر اپنے پہلے رد عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت ایئرپورٹ پر تھے جہاں انہوں نے اس دہشت گرد حملے کو وہاں نصب ٹی وی پر دیکھا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منظر کو دیکھ کر ان کا دل ایک دم دھڑکنے لگا ، اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا اور میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ خدا کرے اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو۔

نیو یارک کے ایک اٹارنی سلیم رضوی کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں سول رائٹس اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں اور اسی دوران صرف پاکستانی امریکی اور امریکی مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ کچھ ایسے براؤن لوگوں کے خلاف بھی سول لبرٹی اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں جنہیں کسی انداز میں مسلمانوں سے کوئی نسبت دی جا سکتی تھی ۔ اور ان سب کے ذہنوں میں ایک خوف تھا ، ایک غیر یقینی کیفیت تھی اور اپنے مستقبل کے بار ے میں تشویش اور فکر مندی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعے نے دنیا کو تو تبدیل کیا ہی لیکن اس کے ری ایکشن نے امریکہ کو بھی تبدیل کیا اور اس کے اثرات اب تک امریکہ میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

نیو یارک کے اٹارنی سلیم رضوی نے کہا کہ آج کے دور میں جب ہم امیگریشن قوانین کی بات کرتے ہیں۔ سول لبرٹی یا ہیومن رائٹس کی بات کرتے ہیں توہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک نائن الیون سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے اور یہ واقعہ نہ صرف ہماری سائیکی کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے عملی اثرات ابھی بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جیف سیشن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حوالے سے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی تک نائن الیون کے اثرات امریکہ پر طاری ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستانی امریکیوں اور امریکی مسلمانوں پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

نائن الیون کے حملے کے جواب میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ ان حملوں کے 17 برس بعد بھی یہ واقعہ ہلاک ہونے والوں کی تکلیف دہ کیفیت کو یاد دلاتا ہے۔ اور اس واقعے کے اثرات نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دینا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔