الطاف حسین کی پاکستان مخالف بیان بازی میں شدت کیوں؟

ایم کیو ایم کے بانی پاکستان کے سیکیورٹی اداروں، فوج اور نظام پر کئی بار اپنے ویڈیو پیغامات میں تنقید کرتے رہے ہیں اور اب وہ بھارتی میڈیا میں بھی اس کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی ایک سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین لندن میں تقریباً 27 برسوں سے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ ان دنوں بھارت میں پناہ کے خواہش مند ہیں۔

الطاف حسین کو لندن میں اس وقت نفرت انگیز تقاریر، منی لانڈرنگ اور پارٹی کے سابق رہنما عمران فاروق کے قتل کیس جیسے مقدمات کا سامنا ہے۔

ایم کیو ایم کے بانی پاکستان کے سیکیورٹی اداروں، فوج اور نظام پر کئی بار اپنے ویڈیو پیغامات میں تنقید کرتے رہے ہیں اور اب وہ بھارتی میڈیا میں بھی اس کا کُھل کر اظہار کر رہے ہیں۔

بدھ کو بھارتی ٹی وی چینل 'ریپبلک' کے پروگرام 'ڈیبیٹ' میں گفتگو کرتے ہوئے الطاف حسین نے دعویٰ کیا کہ "سندھ میں وڈیرے اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی سے مل کر جس ہندو لڑکی کو چاہتے ہیں اٹھا لیتے ہیں اور زبردستی اس سے نکاح کر لیتے ہیں۔ پاکستان انسانوں کا ملک ہے یا حیوانوں کا ملک ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "بھارت کے عوام سے منت کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے ہندوستان کے خلاف نہیں جانا، ہندوستان ہی تمھاری پیدائش اور بقا کا ضامن ہے۔ لہذا ہندوستان سے محبت کرو اور ہندوستان کے وفادار رہنا۔"

الطاف حسین نے بھارت کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "اگر ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو دعا کر دیں کہ ہم مہاجروں کا بھی اللہ کوئی بندوبست کر دے اور ہمیں بھی سر چھپانے اور عزت کی زندگی گزارنے کا کوئی موقع مل جائے۔"

الطاف حسین اس سے قبل بھی مذکورہ خیالات کا اظہار مختلف مواقع پر کر چکے ہیں اور حال ہی میں اپنی ایک ویڈیو میں انہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت سے ہے اس لیے اُنہیں ساتھیوں سمیت بھارت میں رہائش کی اجازت دی جائے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ الطاف حسین نے بھارتی وزیرِ اعظم سے اپیل کی ہے۔ دو سال قبل اپنے ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان میں موجود مہاجروں کی مدد کریں۔ ماضی میں الطاف حسین اقوام متحدہ اور نیٹو سے بھی اسی قسم کی درخواست کر چکے ہیں۔

الطاف حسین کے بھارتی ٹی وی کو مذکورہ انٹرویو پر ایم کیو ایم کے سابق اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما عامر لیاقت حسین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "مجھے افسوس ہے کہ میں نے کبھی میری نس الطاف کہا۔ میں اُس وقت مہاجروں کے لیے خطاب کر رہا تھا اور سمجھتا تھا کہ شاید اس آدمی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔

ایم کیو ایم کے بانی اپنی متنازع تقاریر اور ویڈیو پیغامات پر کئی بار معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ اپنی معافی کی درخواستوں میں وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ساتھیوں کی مسلسل گرفتاریوں اور ان کے ماورائے عدالت قتل پر بہت پریشان ہیں اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے وہ اس قسم کے بیانات دے دیتے ہیں۔

الطاف حسین پارٹی سے عاق کیوں کیے گئے؟

ایم کیو ایم کے خلاف 1992 کے آپریشن سے قبل الطاف حسین لندن چلے گئے تھے۔ جلا وطنی کے دوران کارکنوں سے رابطے کے لیے وہ طویل ٹیلی فونک خطاب کیا کرتے تھے اور ان کے خطاب کو مقامی نجی ٹی وی چینلز میں براہ راست کوریج بھی دی جاتی تھی۔

حکومت اور بعض اوقات ریاست کے خلاف بیان بازی پر اُنہیں شدید تنقید کا بھی سامنا رہا تھا جس کے پیش نظر ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر ہوئی۔ اسی درخواست پر عدالت نے 2015 میں الطاف حسین کی تقاریر اور تصاویر نشر کرنے پر پابندی عائد کی۔

الطاف حسین نے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران اپنے ٹیلی فونک خطاب اور میڈیا کوریج پر پابندی کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ اگر اُن کے خلاف پابندی لگانی چاہیے تھی تو سندھ ہائی کورٹ لگاتی۔ یہ پابندی لاہور ہائی کورٹ نے کیوں لگائی ہے۔

الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطاب پر پابندی کے خلاف ایم کیو ایم نے احتجاج بھی کیا اور اس دوران الطاف حسین کی جانب سے بیانات اور معافی کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔

پارٹی قیادت کے بیانات اور اس وقت کی حکومت کی جانب سے کراچی آپریشن نے ایم کیو ایم کو تقسیم سے دو چار کیا اور سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے مارچ 2016 میں اپنی نئی سیاسی جماعت 'پاک سر زمین' کی بنیاد رکھی۔

اس جماعت سے متعلق چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی جماعت ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایم کیو ایم سے وابستہ رہنما اس میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔

الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر بانی ایم کیو ایم نے کارکنان سے ایک متنازع ٹیلی فونک خطاب کیا جسے بعد ازاں سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیا گیا۔

بائیس اگست کی متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے اُس وقت کے ڈپٹی کنوینئر فاروق ستار نے پارٹی قائد سے اعلانِ لاتعلقی کیا۔

ایم کیو ایم میں سیاسی چپقلش، پارٹی کی دو دھڑوں میں تقسیم، رہنماؤں کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت جیسے عوامل الطاف حسین کی سیاسی تنہائی کی وجہ بننے لگے۔ تاہم اس کے باوجود ان کی طرف سے آنے والے متنازع بیانات کا سلسلہ نہ رُک سکا اور اب وہ مختلف ویڈیو پیغامات اور انٹرویوز کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔