لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ طالبِ علم بیبگر امداد بلوچ کو کراچی میں ہونے والے خود کش دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔انہیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ تفتیش کے لیے زیرِ حراست ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے طالب علم کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے پولیس سے طالب علم کو حراست میں لیے جانے کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کو دیکھنا ہے کہ پولیس نے طالب علم کی گرفتاری کب کی اور اِسے روزنامچے میں کب درج کیا گیا؟
عدالت کے حکم پر سی سی پی او لاہور نے بلوچ طالب علم بیبگر امداد بلوچ کے مبینہ حراست میں لیے جانے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے۔
’طالب علم کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کو کراچی دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔ بیبگرامداد بلوچ کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔
13th day of Sit in camp of Baloch students infront of Vc office punjab university lahore for the safe release of Bebagr Imdad, today is the 13th day of his abduction but still his whereabouts is remain unknown.#ReleaseBebagrImdad #StopHarassingBalochStudents pic.twitter.com/2ig0bc0rNK
— Sakim Baloch (@sakimBaloch_) May 9, 2022
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیبگرامداد بلوچ کو ریاستی اداروں کی جانب سے حراست میں لیے جانے سے قبل ایس ڈی پی او لاہور نے پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کرنل ریٹائرڈ عبداللہ سے رابطہ کیا اور بیبگرامداد بلوچ کے کوائف کی تصدیق کی۔
رپورٹ کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کو گزشتہ ماہ 28 اپریل کو سندھ کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے اپنی حراست میں لیا۔ طالب علم کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ کراچی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کے شبے میں تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
جامعہ پنجاب سے طالب علم کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے پہلی بار ریاست کے اداروں کی جانب سے مؤقف سامنے آیا ہے۔
دھماکے سے ایک دن قبل کراچی میں موجودگی
پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ زیرِ حراست طالب علم دھماکے سے ایک روز قبل کراچی گئے تھے جہاں اُنہوں نے ممکنہ طور پر سہولت کاری کی تھی۔
Reminder:Bebagr Imdad’s fate & whereabouts remain unknown after 12 days of his enforced disappearance from the PU hostel.Complete silence from the government... shameful! #ReleaseBebargImdad#StopHarassingBalochStudents pic.twitter.com/uDSFjZcoGh
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) May 7, 2022
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں بیبگرامداد بلوچ کے گھر والوں سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہ ہو سکے۔ اطلاعات کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کے والد بلوچستان کے ضلع تربت میں سرکاری ملازم ہیں۔
یاد رہے کہ زیرِ حراست طالب علم بیبگرامداد بلوچ کے کزن محمد سلیم نے اپنے کزن کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کا الزام
عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بیبگرامداد بلوچ اسلام آباد سے پنجاب یونیورسٹی اپنے کزن کے پاس آئے تھے۔ انہیں پنجاب یونیورسٹی سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ عدالت مغوی کو بازیاب کرنے کے احکامات جاری کرے۔
کراچی یونیورسٹی میں 26 اپریل کو چینی زبان سکھانے والے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر ایک خاتون نے خود کش دھماکہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سمیت تین چینی اور ایک پاکستانی اساتذہ ہلاک ہوئے تھے۔ واقعے میں ایک چینی اور ایک پاکستانی زخمی بھی ہوئے۔
Baloch Council Punjab University held a peace walk for the safe recovery of their fellow, Bebagr Imdad and against the harassment and profiling of Baloch Students in Punjab and Islamabad. We demand;#ReleaseBebagrImdad#StopHarassingBalochStudents pic.twitter.com/XHlGjwesol
— Baloch Council University of the Punjab Lahore (@BCPULahore) May 3, 2022
بلوچستان کی علیحدگی پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پولیس نے چینی اساتذہ پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی ڈی آئی جی، سی آئی اے کراچی کریم خان کر رہے ہیں۔
بلوچ طلبہ تنظیم کا پنجاب یونیورسٹی میں دھرنا
بلوچ طلبہ تنظیم کے مطابق بیبگرامداد بلوچ اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالبِ علم ہیں جب کہ وہ تربت کے رہائشی ہیں۔ وہ عید کی چھٹیوں کے سلسلہ میں لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اپنے کزن کے پاس آئے ہوئے تھے ۔ جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے بلوچ طلبہ تنظیم نے ان کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنا بھی دیا ہوا ہے۔
دھرنے میں شریک پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سوشل ورک کےسال آخر کے طالب علم ساکم بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 13 دِن سے بیبگرامداد بلوچ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس پر اُن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی بلکہ اُلٹا اُنہیں دھمکایا جا رہا ہے۔
ساکم بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر بیبگرامداد بلوچ کے خلاف کراچی دھماکے کے شواہد ہیں تو اُنہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے لیکن یوں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی شہری کو ریاستی اداروں کی جانب سے حراست میں نہیں لینا چاہیے۔
2nd Day of Eid and It%27s the 8th day of our sit-in infront of VC Office.We have faced threats, torture but still we demand, #ReleaseBebagrImdad#StopHarassingBalochStudents pic.twitter.com/HUuIM3itLi
— Baloch Students Council Lahore (@BSCLahore) May 4, 2022
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بیبگرامداد بلوچ کو سرچ وارنٹ کے بغیر حراست میں لیا گیا ہے۔
بلوچ طالب علموں کو ہراساں کرنے کا الزام
بلوچ طلبہ تنظیم کا دعوٰی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے کوائف اور ذاتی تفصیلات فراہم کرنے کے نام پر کبھی انتظامیہ اور کبھی غیرمتعلقہ افراد کی طرف سے انهیں مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔
واضح رہےکہ بلوچ طلبہ تنظیم کی جانب سے بیبگرامداد بلوچ کو گاڑی میں ڈال کر لے جانے کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔
سرکاری ادارے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹھوس معلومات اور شواہد کی بنا پر ہی شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔