امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عملدرآمد آئى ایم ایف کے پیکج اور پاکستان کی معاشی اصلاحات کی کوششوں کی تکمیل کے لیے بہت ضروری ہے۔
دورہ پاکستان سے واپسی پر جمعے کے روز اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی طرف سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحت دہشت گردی سے متعلق مالی اعانت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر ادارے اور عالمی برادری سے کیے گیے وعدوں کو پورا کرے‘‘۔
اس سوال پر کہ اس حوالے سے امریکہ پاکستان کی کیا مدد کر سکتا ہے، ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہونگے، چونکہ ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈ تکنیکی ہے ناکہ سیاسی۔ اس لیے یہ تکنیکی طریقے سے ہی پوری ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’’امریکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی اعانت کو روکنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے‘‘۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کو ملک میں مقیم تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف بلاامتیاز اور دیرپا کارروائى کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
سی پیک کے حوالے سے ایلس ویلز کے بیانات پر پاکستان کے سینیٹروں کی طرف سے تنقید دیکھنے میں آئى ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
اس پر، ایلس ویلز کا کہنا تھا امریکہ نے ایسی کوئى مداخلت نہیں کی۔ البتہ، پاکستان کا دوست ہونے کے ناطے ہم چاہیں گے کہ پاکستان میں ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہو جن سے اس کے عوام کو روزگار مل سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’’سی پیک میں لگایا جانے والا چینی سرمایہ امداد نہیں، بلکہ قرض کی شکل میں پاکستان پر بوجھ ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں ایسی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے جس سے عوام کو روزگار ملے اور انکی معاشی حالت بہتر ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’اوبر‘ نے پاکستان میں اسی ہزار نوکریاں پیدا کی ہیں۔ امریکی کمپنیاں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں اور انہیں بھی برابر مواقع ملنے چاہیں۔
پاکستان کے دورے سے پہلے ایلس ویلز بھارت کے دورے پر تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں حالات میں قدرے بہتری آئى ہے، اور امریکہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت بغیر الزام کے حراست میں رکھے گئے کشمیری راہنماؤں کی رہائى کے لیے جلد اقدامات کرے۔
انکا کہنا تھا کہ اس وقت امریکا کے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات ’’مثالی‘‘ ہیں۔