پاکستانی کوہ پیما نذیر صابر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتا کوہ پیماوں کی تلاش کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ اور ان کی ٹیم کے لاپتا ہو جانے کے بعد اتوار کو ان کی تلاش کے لیے دوبارہ سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔
نذیر صابر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم سب لاپتا کو پیماوں کی واپسی کے لئے دعا گو ہیں لیکن ان کے زندہ بچنے کی امیدیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ٹو پرآٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر اور وہ بھی سخت سردی کے موسم میں کسی انسان کے لئے دس گھنٹے سے زائد زندہ رہنا مشکل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اتنی بلندی پر اس سے زیادہ دیر رکے ہوئے ہوں تو یخ ٹھنڈی ہوائیں چند گھنٹوں میں منجمد کر سکتی ہیں۔
علی سد پارہ اور ان کی ٹیم کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔ جس کے بعد گزشتہ روز آرمی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سات ہزار میٹر کی بلندی تک لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ جس میں خراب موسم اور تیز ہواؤں کے سبب مشکلات پیش آئیں۔
کے ٹو کے بیس کیمپ میں موجود ‘سیون سمٹ انٹرنیشنل ایکسپیڈیشن’ کے سربراہ چنگ داوا شرپا نے جو کہ خود بیس کیمپ پر موجود ہیں، ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ، علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور کی تلاش میں اتوار کو پھر ہیلی کاپٹرز دوبارہ سے سرچ آپریشن شروع کریں گے۔
پاکستانی میڈیا نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کے ٹو سر کر چکی ہے۔ تاہم رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خبر کی تصدیق ابھی تک سرکاری سطح پر نہیں ہوئی ہے۔
تاہم سدپارہ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہفتے کو پاکستانی وقت کے مطابق چھ بج کر تیس منٹ پر کی گئی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ “ہم ابھی تک تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے منتظر ہیں۔
دسمبر کے وسط میں لگ بھگ 18 ممالک سے تعلق رکھنے والے 60 کوہ پیماؤں نے موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے لیے پاکستان میں ڈیرے ڈالے تھے۔
گزشتہ ماہ 16 جنوری کو 10 نیپالی کوہ پیماؤں نے نرمل پُرجا کی قیادت میں تاریخ رقم کی اور پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کیا۔ جس کے بعد پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ کے ہمراہ ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن موسم کی خرابی کے باعث انہیں بیس کیمپ میں واپس آنا پڑا۔
گزشتہ ہفتے ساجد علی سد پارہ اور علی سد پارہ اپنے دیگر ٹیم ممبرز کے ہمراہ دوبارہ مشن پر روانہ ہوئے۔
‘الپائن کلب آٖف پاکستان’ کے سیکریٹری کرار حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے اونچائی پر مدد فراہم کرنے والے پورٹرز کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز بھی ریسکیو مشن میں شریک ہیں۔
کرار حیدری کے مطابق اب تک کی معلومات کے مطابق آٹھ ہزار میٹر کے فاصلے تک یہ سب ایک ساتھ تھے۔ اس کے بعد ان کے بقول ساجد علی سدپارہ کے آکسیجن گیئر میں کچھ مسئلہ پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد وہ بحفاظت نیچے اترنے میں کامیاب ہوئے۔
یاد رہے کہ کے ٹو کو سر کرنے کے لیے دیگر دشواریوں کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں کو تیز ہواؤں اور منفی 65 سینٹی گریڈ تک درجۂ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کرار حیدری کے مطابق اس بات کے شواہد ابھی تک نہیں ملے ہیں کہ آیا تینوں لاپتا کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ان کے بقول انہیں خدشہ ہے کہ کوہ پیماؤں کی فون بیٹریوں میں چارجنگ ختم ہو گئی تھی۔
کرار کے مطابق اس وقت ایک غیر یقینی کی صورتِ حال ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کسی معجزے کی ہی امید رکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آنے والے دنوں میں موسم مزید خراب رہنے کی پیشن گوئی ہے۔
الپائن کلب کے سیکریٹری کے مطابق کے ٹو کو سر کرنے کی مہم میں اس وقت بیس کیمپ پر تقریباً 30 کے قریب کوہ پیما موجود ہیں۔
SEE ALSO: آکسیجن کے بغیر سرد موسم میں پاکستانی کوہ پیما باپ، بیٹے کا 'مشن کے ٹو'خیال رہے کہ کے ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر ہر چار کوہ پیماؤں میں سے ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سر کرنے کی کوشش میں اب تک 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ اٹانس اسکاٹوو گر کر ہلاک ہوئے تھے۔
ان کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی تھی۔ اس سے قبل اسی مشن سے منسلک ہسپانوی کوہ پیما بھی ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت پاکستان میں ٹوئٹر پر علی سدپارہ اور اُن کے ساتھیوں کے لاپتا ہونے کا معاملہ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور اُن کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاؤں پر مبنی ٹوئٹس کی جا رہی ہیں۔
چیئرمین ہارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر شہریار آفریدی کا ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ ہمارے ہیرو سد پارہ کے لیے پوری قوم دعا گوہ ہے۔
معروف اداکارہ مہوش حیات نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہماری دعائیں کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان سنوری اور ایم پی موہر کے ساتھ ہیں۔
سابق نیوز میزبان ندا فاطمہ سمیر کا علی سد پارہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ ان کا دل اس وقت ڈوب جاتا ہے جب وہ علی سد پارہ کی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاتی ہیں اور انہیں کوئی اپڈیٹ نہیں ملتی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید کا ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے والے تمام کوہ پیماؤں کے لیے دعائیں۔