باغی کمانڈر اور حزب مخالف کے سیاستداں، جو گذشتہ پانچ برسوں کے دوران شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور روس کی ثالثی میں فروری میں جنگ بندی ختم ہونے کے دہانے پر ہے، اور وہ حلب میں حکومت کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں۔
اسد مخالف سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران، اُنھوں نے اسد حکومت اور روسی افواج کی جانب سے ہونے والی جنگ بندی کی کم از کم 66 خلاف ورزیاں درج کی ہیں، جن میں تقریباٍ 100 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سات بچے اور پانچ خواتین شامل ہیں۔ حکومت کی فضائی کارروائی میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نہ صرف حکومت کے لیے، بلکہ تمام فریق کے لیے جنگ بندی کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
جنیوا امن عمل اور بعدازاں گذشتہ ہفتے یونان میں اجلاس میں شرکت کرنے والے باغی مذاکرات کار، بسمہ کادمانی نے اتوار کے روز متنبہ کیا کہ گذشتہ 10 روز کے دوران، ''جنگ بندی میں شدید دراڑ پڑ چکی ہے، یہاں تک کہ جنگ بندی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے''۔
حکومت اور اسد محالف باغیوں نے جنگ بندی کی خلاو ورزی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے۔
اقوام متحدہ کے اہل کاروں نے بھی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ باغیوں کے زیر کنٹرول قصبوں کی جانب بین الاقوامی امداد کی فراہمی روک رہی ہے۔
گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران، ہر طرف لڑائی میں باقاعدہ تیزی دیکھی گئی ہے، جس میں ملک کے تمام فریق ملوث ہیں۔
پیر کے روز داعش کے شدت پسندوں نے شمالی شام میں واقع جنگی حکمت عملی والے ایک اہم قصبے پر دوبارہ قبضہ جمایا جسے گذشتہ ہفتے باغیوں نے فتح کر لیا تھا۔
'سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس' نے، جو باغی نواز مشاہداتی گروپ ہے، خبر دی ہے کہ شدید جھڑپوں کے بعد، الرائی، جو ترکی کی سرحد کے ساتھ کا علاقہ ہے، کا قبضہ واپس لیا گیا۔
مارچ سے اب تک، باغی دھڑوں نے شام ترکی سرحد کے ساتھ واقع درجنوں دیہات کو فتح کر لیا ہے جن پر داعش قابض تھا۔
'سیریئن آبزرویٹری' کے سربراہ، رمی عبد الرحمٰن کے مطابق، امریکی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے فضائی مدد کی عدم فراہمی کے باعث باغی فتح کیے گئے قصبوں پر قبضہ جاری نہ رکھ سکے۔ جنگ بندی میں داعش شامل نہیں تھی، جس پر 27 اپریل سے عمل درآمد شروع ہوا۔