شام میں مبینہ روسی بمباری سے 18 افرادہلاک

فائل

بمباری کا نشانہ بننے والا علاقہ اسلام پسند شامی باغیوں کے قبضے میں ہے جن میں القاعدہ سے منسلک شامی باغی تنظیم النصرہ فرنٹ کے جنگجو بھی شامل ہیں۔

شام کے شمالی علاقے میں مبینہ طور پر روسی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق بمباری ترک سرحد سے 20 کلومیٹر دور واقع صوبہ ادلب کے ایک گاؤں اریحہ میں کی گئی۔

شام میں پرتشدد واقعات کی معلومات اکٹھی کرنے پر مامور تنظیم کے مطابق بظاہر لگتا ہے کہ بمباری روسی طیاروں نے کی جنہوں نے قصبے کے مرکزی بازار کو نشانہ بنایا۔

مذکورہ علاقہ اسلام پسند شامی باغیوں کے قبضے میں ہے جن میں القاعدہ سے منسلک شامی باغی تنظیم النصرہ فرنٹ کے جنگجو بھی شامل ہیں۔

'آبزرویٹری' کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ مذکورہ علاقے میں داعش کا وجود نہیں جسے روس شام میں اپنی فضائی کارروائیوں کا ہدف قرار دیتا ہے۔

دریں اثنا شام کے صدر بشار الاسد نے الزام عائد کیا ہے کہ بیرونی طاقتوں نے شامی باغیوں کی امداد میں اضافہ کردیا ہے۔

اتوار کو دارالحکومت دمشق میں ایران کے اہم سیاست دان اور سابق وزیرِ خارجہ علی اکبر ولایتی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے صدر اسد نے دعویٰ کیا کہ شامی فوج کے لیے ایران اور روس کی مدد میں اضافے کے بعد باغیوں کو بیرونِ ملک سے ملنے والے ہتھیاروں اور وسائل میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

روس اور ایران اسد حکومت کے سب سے اہم اتحادی ہیں جو شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی میں شام کی بھرپور سفارتی، فوجی اور مالی مدد کرتے رہے ہیں۔

اس کے برعکس اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو امریکہ، یورپ، ترکی اور عرب ملکوں کی مدد حاصل ہے۔