افغانستان کے پڑوسی افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نہ نکالیں : این آرسی

پاکستان سےواپس بیجے جانے والے افغان پناہ گزین ، قندھار میں ریڈ کراس سوسائٹی سے خوراک کی امداد لینے کے منتظرہیں، فوٹو اے ایف پی

  • انسانی ہمدردی کے ایک عالمی ادارے نے افغانستان کے پڑوسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک سے نہ نکالیں۔
  • یفیوجی کونسل ناروے کاکہنا ہے کہ افغانستان عشروں کے تنازعے ، اقتصادی بدحالی اور آب وہوا سے منسلک چیلنجوں کی وجہ سے انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوسکا ہے۔
  • کونسل کے سربراہ ایگیلینڈنے کہا کہ افغانستان میں بے پناہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد ضروری ہے۔
  • ایران مارچ تک تقریباً بیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے ،جب کہ پاکستان سے کم از کم آٹھ لاکھ کو پہلے ہی اکتوبر 2023 میں افغانستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔

انسانی ہمدردی کے ایک عالمی ادارے نے افغانستان کے پڑوسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک سے واپس نہ بھیجیں کیونکہ وہ ملک عشروں کے تنازعے ، اقتصادی بدحالی اور آب وہوا سے منسلک چیلنجوں کی وجہ سے انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوسکاہے ۔

ناروے کی ریفیوجی کونسل، یا این آر سی نے رپورٹ دی کہ ایران مارچ تک تقریباً بیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے ،جب کہ پاکستان سے کم از کم آٹھ لاکھ کو پہلے ہی اکتوبر 2023 میں افغانستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔۔

پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان پناہ گزین، فوٹو اے پی 31 اکتوبر 2023

این آر سی کے سیکرٹری جنرل ،Jan Egeland نے کہا ہے کہ ، ایران سے ملک بدری کے خطرے سے دوچار واپس جانے والے بہت سے افغان شہری ، جن سے میں اس ہفتے سرحد پر ملا تھا ، محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک غیر یقینی صورتحال میں رہ رہے ہیں ۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،’ افغان شہریوں نے بہتر اور محفوظ زندگی کی تلاش میں افغانستان چھوڑا تھا اور اب وہ ایک غیر یقینی مستقبل کے ساتھ افغانستان لوٹ رہے ہیں ، جہاں انہیں ویسی ہی بے روزگاری، بھوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہوگا جن کی وجہ سے ہی وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

این آر سی نے نشاندہی کی ہے کہ واپس آنے والے بیشتر افغان شہری جنہیں ملک کے شہری علاقوں میں رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے ،روزگار اور رہائش کی تلاش کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: افغان پناہ گزین: 'برسوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں، پھر بھی واپس بھیجا جا رہا ہے'

اگرچہ ان میں سے کچھ کے خاندانی روابط ہیں ، تاہم بہت سو ں کے پاس برسوں ملک سے باہررہنے کی وجہ سے روابط کی کمی ہے اور ان کےپاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے ۔

ایگیلینڈنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بے پناہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد ضروری ہے، لیکن اب یہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے لئے غیر سرکاری گروپوں کی مالی مدد اور انسانی ہمدردی پر مبنی مالی معاونت میں کمی کا خمیازہ لڑکیوں اور خواتین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

این آر سی کے سربراہ نے کہا کہ اگست 2021 میں جب سے طالبان نے ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا ہے، دنیا نے انسانی ہمدردی کے بدترین بحران میں پھنسے افغان شہریوں کی ضروریات کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیا ہے ۔

ایگیلینڈ نےکہا، ’’غریب اور بے گھر افغان، دربدر ہوجانے والے خاندانوں اور پناہ گزینوں کی معاونت کے کسی حقیقی اور پائیدار حل کے فقدان کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘