ایک ایسے وقت میں جب کہ ترک فورسز شام کے صوبے عفرین میں اپنی سرحد کے ساتھ کئی عشروں سے جاری شورش میں ملوث کرد ملیشیا کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، ترکی میں موجود شام کے پناہ گزینوں کے مستقبل پر سوالات ابھر رہے ہیں۔
انقرہ یہ کہہ چکا ہے کہ اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد اپنی سرحدوں کو دہشت گردی کے ان خطرات سے محفوظ بنانا چاہتا ہے جن کا تعلق شام کی کرد ملیشیا وائی پی جی سے ہے۔
وائی پی جی شام میں داعش کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن اس کے ساتھ جو دوسرا سوال اٹھ رہا ہے وہ شام کی پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ترک سیاسی قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ فوجی کارروائیوں کی کامیابی سے ہزاروں شامی پناہ گزینوں کی عفرین واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
انقرہ یہ کہہ چکا ہے کہ واپس بھیجے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے پانچ لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں استنبول کی بلگی یونیورسٹی کے زیر اہتمام کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ جواب دہندگان کی اکثریت شام سے متعلق حکومت کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہے۔
ترک حکومت پناہ گزینوں کی میزبانی، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی وغیرہ پر اب تک 30 ارب ڈالر سے زیادہ صرف کر چکی ہے۔ دوسری جانب ترک اور شامی کمیونیٹیز کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے۔
پچھلے سال ترکی کے مختلف حصوں میں ترکوں اور شامی پناہ گزینوں کے درمیان کئی تصادم ہوئے تھے ۔ پچھلے سال جولائی میں شامی نوجوانوں کے ہاتھوں ایک نو عمر ترک کی ہلاکت کے بعد دو روز فسادات جاری رہے تھے جس کے نتیجے میں استنبول کے ایک مضافاتی علاقے سے ایک سو سے زیادہ شامی اور أفغان خاندانوں کو نکال دیا گیا تھا۔
ترکی کی کرد نواز مرکزی پارٹی حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں عفرین کے علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا جو بنیادی طورپر کرد اکثریتی علاقہ ہے۔
ترک صدر اردوان اس طرح کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ عفرین کی 55 فی صد آبادی عرب نسل سے تعلق رکھتی ہے جب کہ 35 فی صد کرد ہیں جو بعد ازاں وہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ باقی ماندہ آبادی میں سے 7 فی صد ترکمان ہیں ۔ ہم انہیں یہ حق لوٹانا چاہتے ہیں۔
شام کے پناہ گزین ترکی کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر نے وہاں زندگی گذارنے کے لیے خود کو مقامی حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی شام واپسی سے متعلق گفتگو کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں۔