افغانستان میں جہاں سینکڑوں میڈیا ادارے پنپ رہے ہیں، وہاں صحافی اور عام شہری یکساں طور پر پریشان ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ممکنہ امن معاہدے سے، ملک میں پریس کی آزادی کا سنہری دور ختم ہو جائے گا۔
طالبان کی جائے پیدائش، قندھار میں قائم ’ہیواد ٹیلیوژن‘ اور ریڈیو کے ڈائیریکٹر صدق اللہ خالق کہتے ہیں کہ ہمیں تشویش ہے کہ میڈیا پر جزوی قدغن لگ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا یہ خوف بھی موجود ہے کہ کہیں میڈیا کی مکمل بندش نہ ہو جائے یا میڈیا سرکاری تحویل میں نہ چلا جائے۔
اپنے اقتدار کے دوران، طالبان نے ذرائع ابلاغ اور تفریح کے روایتی ذرائع کے خلاف کام کیا تھا۔ ٹیلی وژن اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، اور صرف ایک ریڈیو سٹیشن، ’وائس آف شریعہ‘ پر پراپیگنڈا یا اسلامی پروگرام نشر کرنے کی اجازت تھی۔
اگر کوئی ٹیلی وژن دیکھتے ہوئے پکڑا جاتا تو اُسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اور اس کے ٹیلی وژن کو توڑ کر اسے کسی کھمبے سے لٹکا دیا جاتا تھا۔
کسی بھی قسم کے الیکٹرونک سامان رکھنے پر پابندی تھی، اور اُسے غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔ ایک وقت تھا جب کابُل شہر کے درختوں کی شاخوں سے کیسٹوں کی ٹیپیں لٹک رہی ہوتی تھیں۔ کسی جاندار کی تصویر کھینچنا غیر قانونی تھا، اور وی سی آر رکھنے والے کو سر عام کوڑے مارے جاتے تھے۔
آج بھی افغانستان صحافیوں کیلئے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے، جنہیں جنگ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے مختلف خطرات کا سامنا رہتا ہے، اور بعض اوقات انہیں کام کے دوران ہدف بنایا جاتا ہے۔
اپریل سن 2018 میں داعش کے ایک حملے میں اے ایف پی کے چیف فوٹو گرافر سمیت نو صحافیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
میڈیا پر نظر رکھنے والے ایک گروپ، ’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ سن 2018 افغانستان میں صحافیوں کیلئے سب سے زیادہ جان لیوا سال تھا، کیونکہ اس برس میڈیا سے وابستہ کم از کم 15 کارکن ہلاک ہوگئے تھے۔
تاہم، افغان حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، ان تمام خطرات کے باوجود، سن 2001 سے لیکر آج تک، سینکڑوں میڈیا اداروں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ آج افغانستان میں 100 سے زیادہ ٹیلی وژن چینل، 284 ریڈیو سٹیشن، 400 سے تھوڑے اوپر اخبار اور رسالے شائع ہو رہے ہیں۔
دنیا کی کم ترین شرح خواندگی رکھنے والے افغانستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو، افغان معاشرے میں ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ افغان عوام اب میڈیا کے ہاتھوں اپنے سیاستدانوں کا احتساب ہوتا دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اگر دوبارہ اقتدار حاصل ہوا تو طالبان آزادی اظہار کی اسلامی تشریح نافذ کریں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ہم پراپیگینڈے، معاشرے کے لوگوں اور اسلامی اقدار کی توہین کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم صرف اُن لوگوں کو اجازت دیں گے جو معاشرے کی بہتری کیلئے کام کریں گے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا چھٹا دور گزشتہ ہفتے دوحہ میں ختم ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ متعدد اہم معاملات پر بظاہر کم ہی پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
دونوں فریقین، مہینوں سے کسی امن معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت جنگ بندی کے عوض، غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوگی، اور اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے گی کہ ملک کو کسی دہشت گرد گروپ کا ٹھکانہ نہیں بننے دیا جائے گا۔
لیکن، مبصرین کو یہ تشویش لاحق ہے کہ تقریباً 18 برسوں پر محیط جنگ کے بعد، افغانستان سے انخلا میں جلدی میں، ہو سکتا ہے کہ امریکہ کہیں افغانوں کی طرف سے مانگے جانے والے حفاظتی اقدامات پر زور نہ دے، جنہیں اب افغان عوام اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں، اور جن میں میڈیا کی آزادی، خواتین اور معاشرے کے کمزور افراد کو ملنے والے حقوق میں بہتری شامل ہے۔
این اے آئی نامی ایک میڈیا ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امن بات چیت کے نتیجے میں تیار ہونے والی کسی بھی دستاویز میں آزادی اظہار کو ایک ایسی قدر کے طور پر شامل کیا جانا چاہئیے جسے ہر حال میں تحفظ دیا جائے گا۔
حال ہی میں ایک ٹیلی وژن چینل کی جانب سے لوگوں سے بھرے ایک آڈیٹوریم میں منعقدہ مباحثے کے دوران، ایک خاتون نے گلبدین حکمت یار سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے مبینہ جنگی جرائم پر معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ گلبدین نے بغیر کسی توقف کے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ گلبدین حکمت یار کو ’کابُل کے قصائی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے سن 1990 کی دہائی میں راکٹ داغ داغ کر آدھے سے زیادہ کابل کو ملبے میں تبدیل کر دیا تھا۔
لیکن، اس حالیہ مباحثے سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی کہ افغانستان میں میڈیا کی آزادی کتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ جہاں کیمروں کے سامنے براہ راست جنگ سے متاثرہ لوگ اب طاقتور لوگوں کا بھی احتساب کر سکتے ہیں۔
اس مباحثے میں شامل، یونیورسٹی کے ایک طالب علم، مصطفیٰ رحیمی کا کہنا تھا کہ برسوں پہلے، ایسا سوال پوچھنے پر آپ ہلاک ہوسکتے تھے۔ لیکن، آج آپ روایتی اور سوشل میڈیا پر خطرناک ترین لوگوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
اب ٹیلی وژن پر منعقدہ مباحثوں، ریڈیو پروگراموں اور سوشل میڈیا پر کھلے عام جنگی سرداروں، سیاستدانوں، طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں اور سرکاری عہدیداروں سے سخت سوال پوچھے جاتے ہیں۔
قندھار میں قائم ایک پرائیویٹ ریڈیو، زاما کی میزبان، مِیرا ہمدم کا کہنا ہے کہ اب یہاں موسیقی کے پروگرام نشر ہوتے ہیں اور خواتین ریڈیو پروگراموں میں فون کر کے اپنے مسائل بتاتی ہیں۔ لیکن، فرض کیجئے کہ اگر طالبان نے ریڈیو نشریات کی اجازت دے بھی دی تب بھی، میرے خیال میں، وہ کبھی ہمارے پروگرام پسند نہیں کریں گے۔ اور یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ کہیں اب تک حاصل ہونے والی تمام کامیابیاں ختم نہ ہو جائیں۔
مصطفیٰ رحیمی کا کہنا ہے کہ انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں افغانستان سیاہ دور کی جانب واپس نہ چلا جائے۔