’ہم غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں‘

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 6 سے 14 سال کی عمر کے 20 لاکھ افغان بچے مزدوری کرتے ہیں۔ افغانستان میں چائلڈ لیبر کے قوانین دیہی علاقوں میں بالخصوص غیر فعال ہیں اور ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

غربت کے باعث کم عمر لڑکے ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی اینٹوں کے بھٹے میں کوئلہ اٹھانے جیسا سخت کام کرتی ہیں۔

کابل کے نواحی علاقے میں اینٹوں کے کارخانے میں مزدوری کرنے والے دس سالہ کامران کے لیے اسکول ایک لگژری ہے جس کا خرچ اس کا خاندان برداشت نہیں کر سکتا۔ کامران کے والد عتیق اللہ کہتے ہیں کہ آج کے دور میں کام کیے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے۔

گاؤں کے دیگر بچوں کے ہمراہ آٹھ سالہ حمیدہ بھی اینٹوں کی بھٹے پر مزدوری کرتی ہے۔ افغانستان میں کارخانوں کے مالکان دیہی علاقوں کے لوگوں کی مالی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں قرض دیتے ہیں اور اس کے بدلے پورے خاندان سے مہینوں کام کراتے ہیں۔

کامران کے والد عتیق اللہ اپنے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ اپنے بھتیجوں کی کفالت بھی کرتے ہیں جن کے والد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے بچوں سے بھی مزدوری کرانی پڑتی ہے۔

غربت سے مجبور والدین اپنے کم سن بچوں کو اینٹوں کے کارخانوں میں مزدوری کے لیے بھیجتے ہیں جہاں انہیں سخت گرمی میں پورا دن کام کرنا ہوتا ہے۔ 

دارالحکومت کابل کے نواح میں اینٹوں کے کارخانے میں مزدوری کرنے والی نو سالہ امینہ تصویر کے لیے پوز دے رہی ہیں۔

ورلڈ بینک کی رواں ہفتے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہوئی تو ہنر مند لوگوں کو بیرونِ ملک روزگار کے مواقع بھی میسر آ سکتے ہیں۔

افغانستان کی معیشت میں گزشتہ سال صرف دو فی صد اضافہ ہوا جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ 'ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے افغانستان کو دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک قرار دیا ہے۔