افغانستان میں صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان مقرر کردہ تاریخ پر نہیں ہو سکے گا۔ افغان حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کے نتائج کا اعلان ممکن نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، افغان حکام کا خیال ہے کہ نتائج مرتب کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے جبکہ مبصرین کی رائے ہے کہ نتائج کے اعلان میں تاخیر سے سیاسی انتشار بڑھے گا۔
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن (آئی ای سی) کے ترجمان عبد العزیز ابراہیمی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے مرکزی ڈیٹا بیس میں ووٹرز کے کوائف کا اندراج تاحال مکمل نہیں ہوا۔
عبد العزیز ابراہیمی کا مزید کہنا ہے کہ انتخابات کے نتائج مرتب کرنے میں شفافیت سب سے اہم ہے۔ جلدی نتائج مرتب کرنے کے لیے شفافیت پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق، نتائج مرتب کرنے میں توقع سے زیادہ وقت لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے 17 اکتوبر بعد ازاں 19 اکتوبر کو صدارتی انتخابات کے اعلان کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ تاہم، اب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ نتائج کب تک سامنے آ سکیں گے۔
افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی جانب سے انتخابات میں کامیابی کے دعوے کیے گئے تھے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو کامیابی کے دعوے کرنے پر اعتراض کیا تھا۔
مختلف نمائندوں کی جانب سے کامیابی کے دعوؤں پر افغانستان کے الیکشن کمشن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کامیاب امیدوار کا اعلان کرنا صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ 18 لاکھ سے زائد ووٹرز کے کوائف کا اندراج مرکزی ڈیٹا بیس میں کیا جا چکا ہے، جبکہ مجموعی طور پر 26 لاکھ افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں حالیہ صدارتی انتخابات میں مجموعی ووٹرز کے ایک چوتھائی افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے حکام نتائج مرتب ہونے میں مزید کئی دن لگنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈیٹا انٹری کی رفتار انتہائی سست ہے اس لیے مزید سات سے 10 دن لگ سکتے ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ الیکشن کمیشن کا نظام انتخابات سے قبل اپ ڈیٹ کیوں نہیں کیا جا سکا تھا، تاکہ بروقت نتائج مرتب کر کے اس کا اعلان کیا جا سکے۔
دو روز قبل اقوام متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) کی ایک خصوصی رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ افغان صدارتی انتخابی عمل کے دوران ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 460 سویلین زخمی ہوئے، جن میں 85 ہلاکتیں ہوئیں، جس میں ایک تہائی تعداد بچوں کی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ 80 فی صد حملوں میں طالبان ملوث تھے۔ اس پر تشدد کارروائی کا مقصد 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابی عمل میں خلل ڈالنا تھا۔
افغانستان کے سابق جنگجو سردار اور صدارتی امیدوار گلبدین حکمت یار نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں افغان صدر اشرف غنی نے دھاندلی کے حربے کھل کر استعمال کیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اشرف غنی کو پڑنے والے ووٹوں کی دو تہائی بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر اور دھوکہ دہی کی بنیاد پر ڈالے گئی۔
دوسری جانب امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے رواں ماہ کے آغاز میں صدارتی انتخابات کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے متعلقہ اداروں پر زور دیا تھا کہ وہ نتائج مرتب کرتے وقت شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے دھاندلی کی شکایات کا ازالہ کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2001 میں طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد افغانستان میں چوتھی بار صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں 14 امیدوار میدان میں تھے۔ تاہم، ان میں موجودہ صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کو اہم قرار دیا گیا ہے۔
افغانستان کی آبادی تین کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے جب کہ ان میں 96 لاکھ سے زائد رجسٹر ووٹرز ہیں۔ افغانستان میں ووٹ دینے کے لیے 18 سال عمر ہونا ضروری ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے لیے 5373 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق اگر نتائج اسی طرح رہے تو مجموعی ٹرن آؤٹ 25 فی صد سے بھی کم ہو گا۔ جو 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہونے والے چاروں صدارتی انتخابات میں کم ترین ٹرن آؤٹ ہوگا۔