افغانستان میں امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل سال 2014ء کے اواخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے، جب افغانستان کی مقامی سکیورٹی فورسز اپنے ملک کی سلامتی کی مکمل ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔تاہم دوسری طرف، طالبان کے حملوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
افغان تجزیہ کار رحیم اللہ سمندر کا کہنا ہے کہ اگر حملوں میں اِسی طرح کا اضافہ ہوتا رہا تو عوام میں مایوسی پھیل سکتی ہے اور افغان حکومت پر اُن کا اعتماد متزلزل ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عوام میں اِس طرح کی تشویش پائی جاتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ جہاں تک افغان فورسز کا معاملہ ہے اُن کی تربیت ابھی مکمل نہیں ہوئی اور اُن کے پاس ضروری سازو سامان بھی موجود نہیں ہے۔بقول اُن کے، افغان فورسز کا اسٹرکچر بھی صحیح نہیں ہے۔اِن خدشات کا مزید ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ: ’اگر حالات بگڑ گئے اور افغان حکومت کا کنٹرول کمزور ہوا تو اُس سے فوج اور پولیس بکھر سکتی ہے۔ پھر سابق ملیشیا گروپ ہیں وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں‘۔
فاٹا سے سابق سکیورٹی سربراہ اور افغان امور کے ماہر، بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیشِ نظر خدشہ ہے کہ 2014ء تک ممکن ہے طالبان مزید طاقتور ہوجائیں۔اُن کے بقول، عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ افغانستان کے حالات بگڑ رہے ہیں۔
اِس سوال پر کہ افغان حکومت خود کو کیسے مستحکم کرکے اِن حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے، رحیم اللہ سمندر کا کہنا تھا کہ اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ بین الاقوامی برادری ، خصوصی طور پر امریکہ اور اتحادی ممالک اِس سارے عمل میں کس حد تک مدد دے سکتے ہیں۔
اِسی اثنا میں طالبان نے ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کو ’جعلی اور غلط‘ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ لیکن، اِس سوال کے جواب میں کہ طالبان کے کسی راہنما کے ہلاکت کی خبر کی تصدیق کا قابلِ اعتماد ذریعہ کیا ہو سکتا ہے، بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب طالبان کا کوئی آدمی مرتا ہے، وہ اُس کی تصدیق کرتے ہیں۔اُن کے بقول، اگر طالبان نے اِس خبر (ملا عمر کی ہلاکت) کی تصدیق نہیں کی تو مطلب یہ ہے کہ یہ خبر درست نہیں ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: