'طالبان کے حملے اپنی سودے بازی کی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش ہے'

  • قمر عباس جعفری

فائل فوٹو

افغانستان کی وزارت دفاع اور مقامی حکام کے مطابق گزشتہ دو روز کے دوران طالبان کے ساتھ لڑائی میں مقامی فورسز یا حکومت کی حامی ملیشیاؤں کے 26 ارکان مارے گئے ہیں۔

عائشہ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اتوار کی رات طالبان نے تخار صوبے کے خواجہ گھر ضلع میں مقامی افغان فورسز پر حملہ کیا اور تخار کے گورنر کے ترجمان محمد جواد ہجری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لڑائی گھنٹوں جاری رہی اور حملہ آوروں کو اسی وقت پسپا کیا جا سکا جب تازہ کمک پہنچی۔

افغان وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مقامی فوج کے 17 ارکان مارے گئے۔ یہ افغانستان کی باقاعدہ فوج سے الگ مقامی سطح پر قائم ملیشیائیں ہیں جو 2018 میں اپنے اپنے علاقوں کی حفاظت کے لئے فوج کی قیادت میں قائم کی گئیں۔ اس کے علاوہ بلخ صوبے کے مقام سلگتا میں بھی طالبان کے حملے میں مقامی فورسز کے 9 ارکان مارے گئے اور سات دوسرے زخمی ہوئے۔

افغانستان کے طوع نیوز چینل کے مطابق 29 فروری کو امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد سے جس میں تشدد کو کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ اب تک طالبان افغان سیکیورٹی فورسز پر دو ہزار سے زیادہ حملے کر چکے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کو اس وقت حکومت اور طالبان دونوں خود کو زیادہ سے زیادہ اہم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیئر سعد نذیر نے کہا کہ افغانستان کے دونوں فریق اپنی اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لئے کوشاں ہیں جب کہ امریکہ ایسے میں جب وہاں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اسے اپنی کامیابی کی ایک کہانی بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے جب کہ طالبان اپنا دباؤ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

بریگیڈیئر سعد نذیر کا کہنا تھا کہ اب افغان سیکیورٹی فورسز بھی یہ سمجھنے لگی ہیں کہ آئندہ جو بھی حل ہو گا اس میں طالبان بڑے اسٹیک ہولڈر ہونگے اور ان کی نظریں مستقبل پر ہیں کہ آئندہ ملک میں کون زیادہ طاقتور ہو گا۔

اس لئے ان کے انداز میں بھی نیم دلی آ گئی ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ اس جنگی معیشت یا وار اکنامی کے فوائد سے کوئی بھی فریق دست بردار ہونے کو تیار نہیں اور لگتا ایسا ہے کہ اس وقت تو معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔

جرمنی میں مقیم افغان صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوا ہے اس میں نہ تو اس بات کا تعین کیا گیا کہ تشدد میں کتنی کمی ہو گی نہ کسی جنگ بندی کی بات کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی لئے ہر فریق اپنی مرضی کی وضاحت کر رہا ہے۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہے۔ اسی لئے قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری جانب طالبان دباؤ بڑھانے کے لئے حملوں میں شدت لا رہے ہیں۔ اور اب شمالی علاقوں تک حملے کر رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے ہزارہ آبادی کو ہدف بنایا ہے۔

ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ یہ سارا عمل شروع ہی سے حقیقی کی بجائے میکانکی سا لگ رہا تھا اور اس لحاظ سے دیکھیں تو مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔

اس معاہدے کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات نظر آ رہی ہے کہ مشکلات کے دن شاید ابھی باقی ہیں۔