امریکہ کے فوجی عہدے دار کہتے ہیں کہ افغانستان میں دریائے Arghendab کی وادی میں ان کی فوجی کارروائیوں کے جو نتائج بر آمد ہوئے ہیں وہ ان کی توقع کے عین مطابق ہیں۔ اب تک یہاں کوئی افغان یا امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا ہے جب کہ کم از کم 20 باغی ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت سا علاقہ پہلی بار امریکی کنٹرول میں آ گیا ہے۔ پریشانی صرف ایک ہے کہ طالبان سامنے آ کر لڑے نہیں بلکہ غائب ہو گئے۔ اب فوجیوں کا مشکل ترین کام شروع ہوا ہے جو یہ ہے کہ مقامی آبادی کے دِل کس طرح جیتے جائیں جس کی ہمدردیاں بڑی حد تک طالبان کے ساتھ ہیں۔
اُدھرصدر اوباما اپنی افغانستان کی حکمت عملی کا دفاع کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس ہفتے “Rolling Stone” میگزین سے کہا کہ ان کی حکمت عملی ناکام نہیں ہوئی ہے لیکن افغانستان کی جنگ عراق کی جنگ سے زیادہ مشکل ہے۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ صدر کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ واشنگٹن میں افغانستان اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بھاری تعداد میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ انھیں قابض افواج سمجھا جاتا ہے جن کی موجودگی سے طالبان میں جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے۔
Paul Pillar 28 برس تک سی آئی اے میں سینیئر تجزیہ کار رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہماری موجود گی سے افغانستان اور پاکستان میں بہت سے مختلف قسم کے گروپ ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ اس طرح ہم نے اپنے دشمنوں کو متحد کر دیا ہے‘‘۔
اس گروپ کا کہنا ہے کہ نو برس پہلے امریکہ جس مقصد سے افغانستان گیا تھا اوراب وہ وہاں جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ شروع میں امریکہ کا مشن یہ تھا کہ القاعدہ کے خفیہ ٹھکانوں کو مستقل طور پر تباہ کر دیا جائے اور ان میں سے بیشتر تباہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ القاعدہ کی مرکزیت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے اور وہ شاید افغانستان واپس آنا نہ چاہے۔ Paul Pillar کے مطابق’’اگر القاعدہ کو افغانستان واپس آنے کا موقع دیا گیا، تو بھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ اسے پاکستان اور دوسرے علاقوں میں اپنی موجودگی کے مقابلے میں افغانستان میں کوئی خاص فائدہ نظر آئے‘‘۔
لیکن اس گروپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے زمینی فوج کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت نہیں۔ اسے صرف فضائی اور بحری طاقت چاہیئے۔ افغانستان میں فوجی کارروائیوں کو طالبان سمیت مختلف سیاسی گروپوں کے ساتھ مصالحت کے ساتھ مشروط کردینا چاہیئے۔ بلکہ منگل کے روز، افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی کا تقرر کیا۔ انھوں نے طالبان سے کہا کہ وہ تشدد کو ترک کردیں اور ملک کے آئین کا احترام کریں۔
لیکن طالبان نے مصالحت کے مذاکرات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پہلے غیر ملکی فوجوں کو افغانستان چھوڑنا ہو گا۔
نیو امریکہ فاؤنڈیشن کے Matthew Hoh کہتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے آئین قبول کرنے کی شرط نہیں لگائی جانی چاہیئے اور امریکہ کو چاہیئے کہ وہ ہر قسم کے طالبان کو مذاکرات میں لانے کی کوشش کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا لیکن وہ مذاکرات کے ذریعے استحکام اور ترقی لا سکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک آپ کسی قسم کے سیاسی سمجھوتے پر نہیں پہنچیں گے جس میں آپ ان سیاسی گروپوں کو شامل کریں جو آج کل طالبان کی حمایت کر رہے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں حکومت سے باہر رکھا گیا ہے، اس وقت تک آپ استحکام قائم نہیں کر سکیں گے جس کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔
افغانستان اسٹڈی گروپ کا کہنا ہے کہ امریکہ آج کل افغانستان میں ہر سال تقریباً 100 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے کیوں کہ اسے حالات کے تحت وہاں اپنے رول کو وسعت دینی پڑی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کی خراب معیشت کی وجہ سے، اوباما انتظامیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے فوائد اس کی لاگت سے زیادہ ہوں گے۔