افغانستان کے انٹیلی ایجنسی ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور افغان وزیرِ داخلہ ویس برمک پاکستان پہنچے ہیں جہاں اُنھوں نے اعلیٰ سیاسی اور عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔
اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے بدھ کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’این ڈی ایس‘ کے سربراہ اور افغان وزیرِ داخلہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ سیاسی و عسکری حکام اور انٹیلی جنس اداروں کی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت نے درخواست کی تھی کہ این ڈی ایس کے سربراہ اور افغانستان کے وزیرِ داخلہ پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد صدر اشرف غنی کے پیغام کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دوطرفہ تعاون پر بات چیت کی جا سکے۔
اعلیٰ افغان عہدیدار ایسے وقت پاکستان پہنچے ہیں جب گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دو مہلک حملے کیے گئے جن میں لگ بھگ 115 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کابل میں 27 جنوری کو ایک پرہجوم علاقے میں بم دھماکے میں کم از کم 103 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے میں ایک ایمبولینس گاڑی میں بارود بھر کر لایا گیا تھا۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس کا ہدف افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔
جب کہ 29 جنوری کو کابل میں ایک ملٹری اکیڈمی پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس میں 11 افغان فوجی اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
واضح رہے کہ 20 جنوری کو کابل میں ایک انٹرکانٹیننل ہوٹل پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں چار امریکی شہری بھی شامل تھے۔
انٹرکانٹیننل ہوٹل کے بعد پاکستان نے افغان حکام کے ان الزامات کی تردید کی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی سرزمین پر ہوئی۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل میں انٹرکانٹیننٹل ہوٹل پر حملے کے بعد بعض افغان حلقوں کی طرف سے پاکستان پر انگلی اٹھائی گئی جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی منگل کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے 27 مشتبہ افراد کو کابل حکومت کے حوالے کیا تھا۔