افغانستان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔
انھوں نے اپنی کامیابی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات کا حتمی فیصلہ افغان عوام ہی کریں گے۔ طالبان کے ساتھ کوئی خفیہ فیصلہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہم ہمت اور مقصد کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے۔
ادھر واشنگٹن میں محکمہ دفاع پینٹاگان نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کو پرامن اور مستحکم ملک بنانے کے عزم پر قائم ہے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے جیف سیلڈن سے بات کرتے ہوئے پینٹاگان کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ اس نکتے پر ہم محکمہ خارجہ سے سبقت نہیں لینا چاہتے۔
ریئر ایڈمرل ولیم بارنے نے کہا کہ ہم ہر دن، ہر گھنٹے اور ہر لمحہ تجزیاتی عمل سے گزر رہے ہیں جبکہ ہم افغانستان سے متعلق مجوزہ سمجھوتے کے منتظر ہیں۔ اس میں تشدد کی کارروائی بند کرنے کی شرط اہمیت رکھتی ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ نئی افغان انتظامیہ کا خیرمقدم کرتا ہے اور اس کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے۔
مشن نے کہا ہے کہ ادارے کو افغانستان کی آبادی کے تنوع کی اہمیت کا مکمل ادراک ہے اور ہم ان افغانوں کی بہادری کے معترف ہیں جنھوں نے سیکورٹی کے سنگین خدشات کے باوجود ووٹنگ میں حصہ لیا۔ ہم جمہوری عمل جاری رکھنے کے لیے ان دلیر ووٹروں کے عزم کو سراہتے ہیں۔
ایک بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کی کامیابی کے اعلان کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ طالبان ترجمان نے کہا کہ اشرف غنی کا عہدہ صدارت کے لیے دوبارہ انتخاب ’’غیر قانونی‘‘ اور افغان امن عمل کی خلاف ورزی ہے۔
اشرف غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرچکے ہیں کہ دراصل ان کی انتخابی ٹیم کی جیت ہوئی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ دھاندلی کرنے والے تاریخ میں رسوا ہوں گے۔ ہم سب کی شرکت کے ساتھ اپنی حکومت کا اعلان کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ تاجک برادری کے نمائندے ہیں۔ انہوں نے اشرف غنی کی کامیابی پر سوال اٹھاتے ہوئے انھیں پشتون کمیونٹی کا نمائندہ بتایا ہے۔ اس طرح کی تفریق کا معاملہ چھیڑنے سے طالبان مخالف سیاسی دھڑوں کے اندر نسلی تقسیم میں اضافہ ہوگا جس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔