طالبان اور افغان سیاست دانوں کے درمیان دوحہ میں ہونے والی دو روزہ مشاورت فریقین کے اختلافات کے باعث غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
دو روزہ کانفرنس کا آغاز ہفتے کو ہونا تھا اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس کے نتیجے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
کانفرنس کے لیے افغان حکومت نے معاشرے کے مختلف طبقات کے نمائندہ 250 افراد پر مشتمل وفد دوحہ بھیجنے کا اعلان کیا تھا جس پر طالبان کو اعتراض تھا۔
وفد کے شرکا کی فہرست ذرائع ابلاغ پر جاری ہونے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ مذاکرات کے میزبانوں کا اتنے بڑے وفد کو قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ کسی شادی یا کابل کے کسی ہوٹل میں ہونے والی پارٹی کا دعوت نامہ نہیں کہ اتنے سارے لوگ چلے آئیں۔
افغان وفد میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے بعض عہدیدار بھی شامل تھے، لیکن طالبان نے کہا تھا کہ سرکاری نمائندے ذاتی حیثیت میں کانفرنس میں شریک ہوں گے اور افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کریں گے۔
طالبان کے اعتراضات دور کرنے کے لیے پسِ پردہ سفارتی کوششیں جاری تھیں جن کی بظاہر ناکامی کے بعد جمعرات کو کانفرنس کے منتظم قطری ادارے نے کانفرنس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
کانفرنس کے التوا پر امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں خلیل زاد نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور تمام افغانوں کی نمائندگی کرنے والے شرکا کی فہرست پر اتفاق کر کے کانفرنس سے متعلق معاملات دوبارہ معمول پر لائیں۔
افغان حکومت نے کانفرنس کی منسوخی کا ذمہ دار قطر کی حکومت کو ٹہرایا ہے اور کہا ہے کہ قطری حکومت نے کانفرنس کے شرکا کی ایک ایسی فہرست کی منظوری دی جو افغان حکومت کی فراہم کردہ فہرست سے مختلف تھی۔
صدر غنی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ قطری حکام کا یہ اقدام افغانوں کی اجتماعی دانش کی توہین کے مترادف ہے جسے افغان عوام قبول نہیں کرتے۔
کانفرنس کے میزبان قطری ادارے سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ ہیومنیٹیرین اسٹڈیز کے سربراہ سلطان برکات نے واضح کیا ہے کہ کانفرنس کے ایجنڈے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں سلطان برکات نے وضاحت کی ہےکہ فریقین کے درمیان کانفرنس کے شرکا کے ناموں اور اس بات پر اختلافات تھے کہ وہ کس کے نمائندے کی حیثیت میں بات چیت میں شریک ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانفرنس کی منسوخی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان امن عمل میں کتنی پیچیدگیاں موجود ہیں اور طالبان تاحال افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت کے لیے تیار نہیں۔