طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ ’کرزئی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنا وقت کا زیاں ہے، اس لیے کہ اُن کے پاس کوئی اختیار نہیں، کیونکہ ملک پر بیرونی قبضہ ہے‘
واشنگٹن —
افغان طالبان نے اِن خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ امریکہ کو شامل کیے بغیر، صدر حامد کرزئی کے طالبان کے ساتھ خفیہ راوبط جاری رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ نیوز‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے حکومت کے ساتھ ملاقات سے متعلق رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے دعوے ’بے بنیاد، اور افغان حکومت کی اختراع ہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’کرزئی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنا وقت کا زیاں ہے، اس لیے کہ اُن کے پاس کوئی اختیار نہیں، کیونکہ ملک پر بیرونی قبضہ ہے‘۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے نامعلوم عہدے داروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ بات چیت نومبر میں شروع ہوئی اور اس پر ’کوئی سمجھوتا نہیں ہو پایا‘؛ نہ ہی بات مذاکرات کی شروعات سے آگے بڑھ سکی ہے۔
مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امن کے رابطے‘ کی شروعات دہشت گرد گروپ نے کی۔
یہی وہ وقت تھا جب کرزئی نے امریکہ کے ساتھ ’باہمی سلامتی کے سمجھوتے‘ پر دستخط سے انکار کا فیصلہ کیا، اور بجائے اس کے، اُنھوں نے افغان قیدخانوں سے سنگین جرائم میں ملوث، طالبان شدت پسندوں کو رہا کرنا شروع کردیا، اور وہ مبینہ ثبوت بتانا شروع کیے، جو جرائم، بقول اُن کے، امریکی فوج سے سرزد ہوئے۔
باہمی سلامتی کے سمجھوتے کی بدولت، دسمبر میں نیٹو کے انخلا کے بعد، ملک میں تقریباً 10000امریکی فوجی تعینات رہ سکیں گے۔
کرزئی کہہ چکے ہیں کہ اپریل کے انتخابات کے بعد، اُن کے جانشین مذاکرات مکمل کر سکتے ہیں۔ معاہدے میں دستخط میں تاخیر کے باعث، امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔
منگل کے روز وائٹ ہاؤس کے حکام امریکی فوج کے اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات کرنے والے ہیں، جس میں افغانستان میں ’امریکی مشن‘ کے مستقبل سے متعلق گفتگو ہوگی۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ امریکہ کو شامل کیے بغیر، صدر حامد کرزئی کے طالبان کے ساتھ خفیہ راوبط جاری رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ نیوز‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے حکومت کے ساتھ ملاقات سے متعلق رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے دعوے ’بے بنیاد، اور افغان حکومت کی اختراع ہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’کرزئی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنا وقت کا زیاں ہے، اس لیے کہ اُن کے پاس کوئی اختیار نہیں، کیونکہ ملک پر بیرونی قبضہ ہے‘۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے نامعلوم عہدے داروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ بات چیت نومبر میں شروع ہوئی اور اس پر ’کوئی سمجھوتا نہیں ہو پایا‘؛ نہ ہی بات مذاکرات کی شروعات سے آگے بڑھ سکی ہے۔
مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امن کے رابطے‘ کی شروعات دہشت گرد گروپ نے کی۔
یہی وہ وقت تھا جب کرزئی نے امریکہ کے ساتھ ’باہمی سلامتی کے سمجھوتے‘ پر دستخط سے انکار کا فیصلہ کیا، اور بجائے اس کے، اُنھوں نے افغان قیدخانوں سے سنگین جرائم میں ملوث، طالبان شدت پسندوں کو رہا کرنا شروع کردیا، اور وہ مبینہ ثبوت بتانا شروع کیے، جو جرائم، بقول اُن کے، امریکی فوج سے سرزد ہوئے۔
باہمی سلامتی کے سمجھوتے کی بدولت، دسمبر میں نیٹو کے انخلا کے بعد، ملک میں تقریباً 10000امریکی فوجی تعینات رہ سکیں گے۔
کرزئی کہہ چکے ہیں کہ اپریل کے انتخابات کے بعد، اُن کے جانشین مذاکرات مکمل کر سکتے ہیں۔ معاہدے میں دستخط میں تاخیر کے باعث، امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔
منگل کے روز وائٹ ہاؤس کے حکام امریکی فوج کے اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات کرنے والے ہیں، جس میں افغانستان میں ’امریکی مشن‘ کے مستقبل سے متعلق گفتگو ہوگی۔