امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے: افغان طالبان

دوحہ

طالبان نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات اتوار کے روز مکمل ہوجائیں گے، جس دوران امن سمجھوتا طے پائے گا جس کے نتیجے میں افغانستان میں 18 سالہ لڑائی ختم ہوجائے گی۔

دو حریفوں کے مابین سال بھر سے جاری بات چیت کا فیصلہ کُن نواں دور جمعرات کے روز خلیجی ریاست قطر کے روایتی مقام پر دوبارہ شروع ہوا۔ امریکی مذاکرات کاروں کے وفد کی قیادت افغان نژاد امریکی سفارت کار، زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔

طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ طریقہ کار کی تفصیل طے کی جا رہی ہے، تاکہ امریکی قیادت والی غیر ملکی فواج کے ملک سے انخلا کا معاملہ طے کیا جا سکے۔

مجاہد نے کہا کہ ’’ہمیں امید ہے کہ اس بار، انشا اللہ، ہر چیز طے ہوگی۔ طریقہ کار کی تفصیل طے کی جا رہی ہے۔ لیکن، ایسا کوئی نکتہ باقی نہیں رہنے دیا جائے گا جس پر اتفاق رائے نہ ہو‘‘۔

انھوں نے وضاحت کی کہ اس طریقہ کار میں امریکی فوج کے انخلا کی باریکیوں کی تفصیل دی جائے گی آیا کن علاقوں میں اس کا آغاز ہوگا اور اس عمل کے مکمل ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا‘‘۔

مجاہد نے کہا کہ تفاصیل کو آخری شکل دینے کے لیے طالبان اور امریکی مذاکرات کاروں کو ’’مزید ایک دن‘‘ درکار ہوگا۔

انھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اُس وقت بات کی جب دونوں فریقین ہفتے کی رات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تیسرے دن کی گفتگو شروع کرنے والے تھے۔ مجاہد نے غیر ملکی فوج کے انخلا کے نظام الاوقات کے بارے میں کچھ نہیں کہا، نہ ہی امریکی وفد نے تفصیل بتائی ہے۔

دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات مکمل کرنے کے بعد خلیل زاد کابل کا سفر کریں گے، تاکہ اطلاعات کے مطابق، وہ افغان قیادت کو سمجھوتے کی تفصیل بتا سکیں۔

ایک انٹرویو میں طالبان کے سیاسی ترجمان، سہیل شاہین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے حتمی سمجھوتے پر بین الاقوامی ضمانت دہندگان کی موجودگی میں دستخط ہوں گے، جن میں روس، چین، پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ بھی شامل ہوگا۔

بتایا جاتا ہے کہ امریکہ طالبان سمجھوتے کے نتیجے میں 2020ء کے آخر تک افغانستان سے تقریباً تمام 20000 غیر ملکی فوجیں واپس چلی جائیں گی۔