افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگجوؤں کے نمائندوں نے افغان حکومت سے خفیہ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
یہ دعویٰ امریکہ کے ایک با اثر اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ نے منگل کو دیر گئے اپنی ایک رپورٹ میں کیا جس میں نامعلوم افغان اور عرب ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بات چیت کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے نمائندوں کو پہلی بار اپنے سربراہ مولا محمد عمر اور اِن کی تحریک کی مبینہ طور پر پاکستان میں قائم کوئٹہ شوریٰ کی طرف سے بات کرنے کی مکمل اجازت دی گئی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ کوئٹہ شوریٰ جن معاملات پر سمجھوتے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے اِن میں طالبان کی افغان حکومت میں شرکت اور ملک سے مقررہ وقت پر بین الاقوامی افواج کی واپسی شامل ہیں۔
افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پٹریاس نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ طالبان نے مفاہمت کے سلسلے میں افغان حکومت سے رابطہ کیا تھا۔
افغان صدر حامد کرزئی بھی طالبان سے بات چیت پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں بشرطیکہ وہ شدت پسندی کا راستہ ترک کر دیں اور ملک کے آئین کی پاسداری کریں۔
اخبار کے مطابق حالیہ مذاکرات میں افغان طالبان سے تعلق رکھنے والے حقانی گروپ کے نمائندے شامل نہیں ہیں۔