افغانستان کی صورت حال روز بروز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جانب تو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ تعطل میں پڑا ہوا ہے اور دوسری جانب دو سیاسی حریفوں یعنی صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان رسہ کشی نے بین الافغان مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ کرونا کی وبا، باخبر حلقوں کے مطابق ایران سے ہزاروں کی تعداد میں بغیر کسی ٹیسٹ آنے والے افغان مہاجرین کے سبب آنے والے دنوں میں شدت اختیار کر سکتی ہے۔
افغانستان کے ایک رکن پارلیمنٹ انجینئر کمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہرچند کہ اشرف غنی کی حکومت نے محمد حنیف اتمر کو نیا وزیر خارجہ مقرر کرتے ہوئے انکو ہدایت کی ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے معاملے کو دیکھیں اور اسے آگے بڑھانے کے لئے اقدامات کریں۔ لیکن انجینئر کمال نے کہا کہ جب تک اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوتی، افغان حکومت کو بین الافغان مذاکرات میں مضبوط پوزیشن حاصل نہیں ہو گی اور اس کے برخلاف طالبان مضبوط پوزیشن حاصل کرتے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ترجیح اس سیاسی تعطل کو ختم کرانے کو دی جانی چاہیئے۔ جس کے بعد ہی حکومت متحدہ طور پر ایک مضبوط حیثیت میں مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ اور اس کے لئے ریجنل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جو جرگہ سیاسی مفاہمت کے لئے کام کر ریا ہے اس نے دونوں فریقوں یعنی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے کہا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سے سات روز تک نہ تو کوئی تقرر کریں، نہ نئے احکامات جاری کریں اور بالکل خاموشی اختیار کریں اور اس دوران جرگہ مفاہمت کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرے گا۔
انجینئر کمال نے ایران سے ہزاروں کی تعداد میں بغیر کسی ٹیسٹ کے افغان مہاجرین کی افغانستان آمد کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایران کی سرحد سے ملنے والے افغان صوبے ہرات کی انتظامیہ انہیں روکنے یا ٹیسٹ کر کے اندر آنے کی اجازت دینے کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر سکی۔
انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مہاجرین اب پورے افغانستان میں پھیل جائیں گے اور ساتھ ہی کرونا وائرس بھی پھیلا دیں گے۔
ایک اور تجزیہ کار اور افغان صحافی میر ویس افغان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کوئی مثبت نتائج حاصل کئے جا سکیں گے۔ کیونکہ نہ تو افغان حکومت متحدہ طور پر خود کو پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی طالبان کے تمام دھڑ ے اب اس معاہدے پر متفق ہیں۔ اور معاہدے میں تشدد میں کمی کرنا طے کیا گیا تھا۔ جب کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے اور طالبان کی جانب سے تشدد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق افغان افواج کی تنظیم نو وغیرہ اور انہیں زیادہ فعال بنانے کے لئے دی جانے والی امریکی امداد میں کوئی ایک ارب ڈالر کی کمی کی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہی ہوا تو اس سے افغان افواج کے مورال پر بہت برا اثر پڑے گا اور طالبان زیادہ مضبوط پوزیشن میں آ جائیں گے۔