جنگ زدہ ملک افغانستان میں جہاں طویل عرصے سے جاری شورش میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے وہیں درجنوں ایسی خواتین بھی ہیں جو اس جنگ کے باعث بیوہ ہوئیں۔
سیکیورٹی اہلکاروں کی وہ بیوائیں جن کے خاوند فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے، اب وہ زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے فوجیوں کی وردیاں سی کر گزر بسر کر رہی ہیں۔
افغان وزارتِ دفاع نے دارالحکومت کابل میں ایسی فیکٹری قائم کی ہے جہاں فوجیوں اور قیدیوں کے لیے یونیفارم تیار کرنے کے لیے تقریباً 120 خواتین کام کر رہی ہیں۔
ان خواتین میں زیادہ تر بیوہ ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان میں تمام کا تعلق ایسے فوجی اہلکار سے رہا ہے جو یا تو دورانِ ڈیوٹی ہلاک ہوا یا فوج میں خدمات پیش کر چکا ہے۔
ایسی ہی ایک خاتون رویا نعمتی ہیں، جن کے شوہر ایک فوجی آپریشن کے دوران دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اکتیس سالہ رویا نعمتی کے چار بچے ہیں جنہیں کابل میں ایک اپارٹمنٹ میں رہائش کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی دی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے رویا نے بتایا کہ خاوند کے انتقال کے بعد ابتدا میں انہوں نے امید کھو دی تھی اور انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق تھی۔ لیکن فوجیوں کی وردیاں سینے کی ملازمت ملنے کے بعد ان کی مشکلات میں کمی ہوئی ہے۔
قدامت پسند افغان معاشرے میں عموماً مرد گھر کی کفالت کرتے ہیں۔ لیکن سلائی مشین سے رویا نعمتی اب اپنا چولہا جلانے کا بندوبست کر رہی ہیں اور ماہانہ 12 ہزار افغانی (155 ڈالر) کما لیتی ہیں۔
وردیاں سینے والی فیکٹری میں کام کرنے والی 37 سالہ محبوبہ سدید پروانی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ سلائی کرتے ہوئے وہ اکثر اداس ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کے بقول، "یہ وہی یونیفارم ہے جس میں میرا بیٹا دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوا تھا۔"
محبوبہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کا بیٹا ہلاک ہوگیا لیکن وہ خوش ہیں کہ دوسرے نوجوان یہ یونیفارم پہن کر طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
سمیرا بھی دیگر خواتین کی طرح اس فیکٹری میں ملازمت کرتی ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ جو وردی وہ تیار کر رہی ہیں ضرور اسے طالبان کے قیدی زیب تن کریں گے۔
یاد رہے کہ سال 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی ملکوں کے اتحاد نے اس وقت افغانستان میں موجود طالبان کی حکومت کے خاتمہ کر دیا تھا اور اسی کے ساتھ چھڑنے والی جنگ کو 19 برس سے زائد ہو چکے ہیں۔
فریقین کے درمیان امن کی کوششوں کے باوجود ملک بھر میں تشدد کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں جس میں ہزاروں فوجی اور شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی درست تعداد تو اگرچہ معلوم نہیں۔ لیکن 2019 میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ 45 ہزار سے زیادہ افراد اپنی جان کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔
افغان جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت یکم مئی 2021 تک غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا یقینی بنانا ہے جب کہ طالبان نے عالمی دہشت گرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنے اور غیر ملکی فورسز کو نشانہ نہ بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
افغانستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران تشدد میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں امریکہ کی موجودہ حکومت نے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔