پیرس اولمپکس میں شریک افغان خاتون بریک ڈانسر نااہل قرار

  • منیزہ نے بریک ڈانسنگ کے پری کوالیفائر مقابلے میں کاندھے پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا جس پر ' فری افغان ویمن' تحریر تھا۔
  • تالاش نے اپنے لباس پر سیاسی نعرے کو نمایاں کر کے اولمپکس چارٹر کے رول 50 کی خلاف ورزی کی ہے، اولمپکس ایسوسی ایشن
  • پیرس اولمپکس میں چھ ایتھلیٹس افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ تاہم افغانستان کی طالبان حکومت خواتین ایتھلیٹس کو تسلیم نہیں کرتی۔

ویب ڈیسک پیرس اولمپکس میں تارکینِ وطن کے مقابلوں میں حصہ لینے والی افغان ایتھلیٹ بریک ڈانسر منیزہ تالاش کو 'متنازع پہناوے' پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

منیزہ نے جمعے کو اپنی بھارتی حریف سرج جوئے کے خلاف اولمپک بریک کے پری کوالیفائر مقابلے میں کاندھے پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا جس پر ' فری افغان ویمن' تحریر تھا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اولمپکس ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 21 سالہ تالاش نے اپنے لباس پر سیاسی نعرے کو نمایاں کر کے اولمپکس چارٹر کے رول 50 کی خلاف ورزی کی ہے جس پر وہ نااہل قرار دی گئی ہیں۔

اولمپکس چارٹر کے رول 50 کے مطابق اولمپکس مقابلے کی جگہ یا کسی بھی مقام پر ایتھلیٹ سیاسی، مذہبی یا نسلی امتیاز پر مبنی مظاہرہ نہیں کر سکتا۔

پیرس اولمپکس میں چھ ایتھلیٹس افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ تاہم افغانستان کی طالبان حکومت خواتین ایتھلیٹس کو تسلیم نہیں کرتی۔

مذکورہ تمام ایتھلیٹس سائیکلنگ، ایتھلیٹک، سوئمنگ اور جوڈو میں افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

پیرس اولمپکس میں خواتین کے بریک ڈانس پری کوالفائی مقابلے میں منیزہ تالاش مظاہرہ کرتے ہوئے۔

کابل میں پیدا ہونے والی منیزہ تالاش ان دنوں اسپین میں مقیم ہیں جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان فرار ہو گئی تھیں۔

پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے منیزہ نے ایک سال تک پاکستان میں پناہ اختیار کی تھی اور بعد ازاں وہ اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسپین منتقل ہو گئی تھیں۔

پیرس اولمپکس میں شرکت سے قبل منیزہ تالاش کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغانستان اس لیے نہیں چھوڑا کہ وہ طالبان سے ڈرتی ہیں یا افغانستان میں نہیں رہ سکتی۔

ان کے بقول "میں نے افغانستان اس لیے چھوڑا تاکہ میں اپنی زندگی، مستقبل اور افغان خواتین سمیت ہر کسی کے لیے وہ کام کر سکوں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔"

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔