افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں واقع پُلِ چرخی جیل میں تقریباً 20 قیدیوں نے حکومت کی پالیسوں کی خلاف احتجاجاً اپنے ہونٹ سی لیے۔
یہ افراد ان تین سو قیدیوں میں شامل ہیں جو اس صدارتی حکم کے خلاف بھوک ہڑتال کر رہے ہیں، جس کے تحت اب اُنھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کابل کی بجائے اپنے صوبوں میں واقع جیلوں میں اپنی سزا مکمل کر سکیں۔
پُلِ چرخی جیل کے انچارج عبدالحلیم کوہستانی نے کہا کہ احتجاج کرنے والے قیدیوں کا یہ بھی مطالبہ ہے، اُنھیں بھی ایسے قیدیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے جن کی سزاؤں میں مذہبی تہواروں کے موقع پر صدر کی طرف سے سزا کم کی جاتی ہے۔
افغان سینیٹ کے رکن محمد ہشام الکوزئی نے کہا کہ احتجاج کرنے والے قیدیوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں منشیات اسمگل کرنے اور طالبان سے رابطوں کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
افغان وزارت داخلہ نے یہ تو بتایا ہے کہ قیدیوں کی طرف سے بھوک ہڑتال کی گئی تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ کئی قیدیوں نے اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔
وزارت داخلہ کے قائم مقام ترجمان نے کہا کہ وزارت داخلہ اور اٹارنی جنرل کے دفتر کا ایک مشترکہ وفد قیدیوں سے ملاقات کرے گا۔
اسی جیل میں رواں سال فروری کے اواخر میں سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں نے اپنے خلاف مبینہ طور روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی جسے انہوں نے اپنے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
افغانستان میں مبینہ طور پر ناروا سلوک کے سبب قیدیوں کا احتجاج کے طور پر ہونٹ سینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی بعض اوقات افغانستان میں جیلوں کے ماحول پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی 2015 کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قیدیوں میں سے ایک تہائی کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔