افغان صدر اشرف غنی کے دورۂ چین کا اعلان

فائل

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق افغان صدر رواں ماہ 28 سے 31 تاریخ تک چین کا دورہ کریں گے۔

افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پڑوسی ملک چین کا انتخاب کیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق افغان صدر رواں ماہ 28 سے 31 تاریخ تک چین کا دورہ کریں گے۔

بدھ کو بیجنگ میں معمول کی پریس بریفنگ کے دوران وزارت کی ترجمان ہوا چن ینگ نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہوگا جسے چین کی حکومت بہت اہمیت دے رہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ صدر اشرف غنی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بیرونِ ملک دورے پر چین آنے کا فیصلہ کیا ہے جو انتہائی اہم قدم ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چین افغانستان کی پرامن تعمیرِ نو کے لیے نئی افغان حکومت کو بھی ماضی کی طرح ہر ممکن مدد فراہم کرتا رہے گا۔

خیال رہے کہ چین نے رواں موسمِ گرما میں افغانستان میں تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن افغانستان میں انتخابی نتائج سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے باعث مجوزہ کانفرنس منسوخ کردی گئی تھی۔

اس سے قبل چین نے رواں سال جولائی میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی بھی مقرر کیا تھا جس کا مقصد، چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق، افغان حکومت اور دیگر متعلقہ فریقین سے قریبی رابطے استوار کرنا تھا۔

چین اور افغانستان کی مختصر سی مشترکہ سرحدی پٹی سخت دشوار گزار اور ناقابلِ عبور پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان زمینی رابطہ موجود نہیں۔

چین کی افغانستان میں زیادہ تر دلچسپی وہاں موجود معدنی ذخائر میں رہی ہے اور افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کےباوجود چین اس کے وسیع معدنی ذخائر کی کھوج اور کا ن کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند بھی ہے۔

امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون ' کے اندازوں کے مطابق ان معدنی ذخائر کا تخمینہ 10 کھرب ڈالرہے۔

لیکن جیسے جیسے افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا قریب آرہا ہے، چین کی افغانستان میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور چین افغان بحران کے ایک اہم فریق کے طور پر ابھر رہا ہے۔

چینی حکام کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہونے سے اس کی افغانستان سے متصل مسلمان اکثریتی ریاست سنکیانگ میں جاری مزاحمت زور پکڑ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ چین کے اس شمال مشرقی پہاڑی علاقے کی سرحد پاکستان کےعلاوہ افغانستان سے بھی ملتی ہے اور چینی حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کو پڑوسی ملکوں کے شدت پسندوں سے مدد ملتی ہے۔