افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کے خاتمے کا علان کرتے ہوئے سکیورٹی اداروں کو اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
افغان صدر نے عیدالفطر سے دو روز قبل طالبان کے خلاف تمام کارروائیاں ایک ہفتے کے لیے یک طرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
افغان صدر کی اس غیر متوقع پیشکش کے بعد افغان طالبان نے بھی 17 سال سے جاری اپنی مسلح کارروائیوں کو پہلی بار عید الفطر کے تین روز کے دوران معطل کردیا تھا۔
بعد ازاں صدر غنی نے اس امید پر جنگ بندی میں مزید 10 روز کی یک طرفہ توسیع کردی تھی کہ اس کے نتیجے میں طالبان کو اپنی مسلح جدوجہد ترک کرکے مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملے گی۔
لیکن طالبان نے صدر غنی کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع کا مثبت جواب نہیں دیا تھا اور عید کے بعد افغان فورسز اور سرکاری تنصیبات پر اپنے حملے دوبارہ شروع کردیے تھے۔
ہفتے کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے 18 روز سے جاری یک طرفہ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب جنگ بندی ختم کی جارہی ہے اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور فوج کو اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
تاہم صدر غنی نے کہا کہ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت اور قیامِ امن کے لیے حکومت کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔
افغان صدر نے دعویٰ کیا کہ عید الفطر پر ہونے والی جنگ بندی نے ثابت کیا ہے کہ بہت سے طالبان جنگجو جنگ سے عاجز آچکے ہیں اور امن کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے طالبان کو مذاکرات کی دوبارہ دعوت دیتے ہوئے کہا کہ طالبان جب بھی چاہیں گے وہ دوبارہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں جو ان کے بقول "قوم کا مطالبہ ہے۔"
صدر نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی مدت کا انتخاب طالبان پر چھوڑتے ہیں کہ وہ 10 دن کے لیے لڑائی روکنا چاہتے ہیں یا ایک سال کے لیے۔
صدر غنی کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے بھی افغان فورسز کی زمینی کارروائیوں میں مدد دینے کے لیے طالبان کے ٹھکانوں پر کی جانے والی فضائی بمباری کا سلسلہ روک دیا تھا۔
افغان اور بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ عید الفطر کے موقع پر ہونے والی جنگ بندی کے نتیجے میں افغان سکیورٹی اہلکاروں اور طالبان جنگجووں کو ایک دوسرے کے زیرِ قبضہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا تھا جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔
افغان ذرائع ابلاغ نے ایسی کئی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی تھیں جن میں افغان اہلکار اور عام شہری عید کے موقع پر طالبان جنگجووں سے گلے مل رہے تھے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے تھے۔
پاکستان سمیت افغانستان کے بیشتر پڑوسی ملکوں، امریکہ اور عالمی برادری نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے افغانستان میں قیامِ امن کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا۔
لیکن طالبان نے اس تاثر کی تردید کی تھی کہ انہوں نے عید کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان افغان حکومت کی پیشکش کے جواب میں کیا تھا۔
طالبان نے واضح کیا تھا کہ عید پر جنگ بندی کا فیصلہ ان کا اپنا تھا جس پر عمل درآمد نے ان بے بنیاد دعووں کی بھی نفی کردی کہ طالبان ایک "متحد طاقت" نہیں اور انہیں غیر ملکی طاقتیں چلا رہی ہیں۔
طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر اپنا دیرینہ موقف دہرایا تھا کہ وہ ملک میں قیامِ امن کے معاملے پر صرف امریکہ سے ہی بات کریں گے اور اس مسئلے پر امریکہ کی "کٹھ پتلی" افغان حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی۔
امریکہ تاحال طالبان کی جانب سے براہِ راست مذاکرات کی خواہش کو بظاہر مسترد کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی امن عمل خود افغانوں ہی کی قیادت میں آگے بڑھنا چاہیے۔