افغان قیادت کا دورۂ امریکہ وقت کا ضیاع ہے: طالبان

فائل فوٹو

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ جمعے سے امریکہ کا دورہ کریں گے جہاں وہ امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ ماہرین اس ملاقات کو افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات عملاً سست روی کا شکار ہیں اور افغانستان میں طالبان کی جانب سے مختلف اضلاع پر قبضوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس وقت افغان فورسز اور طالبان کے درمیان ملک کے 34 صوبوں میں سے 28 میں لڑائی جاری ہے جب کہ طالبان 150 سے زائد اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان کے ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

امریکی فوج کے چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بدھ کو کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ افغانستان کے 419 اضلاع میں سے 81 طالبان کے زیرِ تسلط آ چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ اب تک طالبان مکمل طور پر 167 اضلاع کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی فی الحال ان کی ترجیحات میں نہیں۔

البتہ امریکہ نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسلط کردہ حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی مالی امداد صرف اسی صورت میں ہی جاری رہ سکتی ہے جب وہاں کی حکومت کو عالمی برادری کی حمایت حاصل ہو۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان قیادت دورۂ امریکہ کے دوران چاہے گی کہ امریکہ اور اتحادی ممالک افغانستان کو ماضی کی طرح 'بے یار و مددگار' نہ چھوڑیں۔

SEE ALSO: افغانستان اور تاجکستان کے درمیان اہم گزر گاہ پر طالبان قابض، درجنوں افغان فوجیوں نے سرحد پار پناہ لے لی

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کابل میں مقیم سینئر تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد نے کہا کہ صدر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی کی مد میں ہونے والے معاہدوں کو انخلا کے بعد بھی جاری رکھا جائے۔

ان کے بقول، افغان قیادت کی امریکی صدر سے ملاقات کا دوسرا ایجنڈا ملک میں عبوری حکومت کے بجائے الیکشن کا تسلسل ہے۔

نجیب اللہ آزاد کے مطابق افغان حکومت چاہتی ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے پاکستان پر مزید دباؤ ڈالا جائے، تاکہ وہ اپنا عملی کردار ادا کرے اور طالبان جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے جسے 11 ستمبر تک مکمل کیا جانا ہے۔ انخلا کا یہ عمل یکم مئی سے شروع ہوا تھا جس کے فوراً بعد ہی طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں شدت آ گئی ہے اور وہ کئی اضلاع پر قابض بھی ہو چکے ہیں۔

افغان تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو۔ اس لیے دورۂ امریکہ میں اشرف غنی کے ہمراہ افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی ہیں۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون خوازون کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغان قیادت کو مدعو کیا ہے۔ اس دورے کے دوران دو طرفہ تعلقات، افغانستان کے لیے امریکی امداد اور افغان امن عمل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فریدون خوازون نے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان باہمی چپقلش کے تاثر کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان امن عمل پر کوئی اختلاف نہیں اور اس موقع پر قومی اتفاق رائے کو تقویت دینا بہت ضروری ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا انخلا کے بعد بھی امریکہ افغان فوج کی مدد جاری رکھے گا؟

ان کے بقول، افغان امن عمل سے فائدہ اٹھانے کے لیے تمام فریقین کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد کہتے ہیں امریکہ کی خواہش ہو گی کہ افغانستان میں جلد جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے اور فوری طور پر ایسی حکومت قائم کی جائے جو تمام دھڑوں کو قابلِ قبول ہو۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں استحکام کا تعلق صرف طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کسی اتفاق سے نہیں، اس کے لیے امریکہ سمیت علاقائی ممالک جن میں پاکستان، روس اور چین بھی شامل ہیں، ان کا اتفاق ہونا بھی لازمی ہے۔

نجیب اللہ آزاد کے مطابق امریکہ اور علاقائی ممالک جب کسی منطقی فیصلے پر متفق ہوں گے اس کے بعد ہی افغانستان کا مسئلہ حل کی جانب بڑھے گا۔

افغان قیادت کا دورۂ امریکہ وقت کا ضیاع ہے: طالبان

دوسری جانب طالبان افغان قیادت کے دورۂ امریکہ کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔

طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق افغان امن عمل میں تیزی لانے اور افغانستان کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو رواں ہفتے دوحہ آنا تھا۔ تاہم انہوں نے اس اہم موقع پر دورۂ امریکہ کو ترجیح دی۔

سہیل شاہین نے کہا کہ موجودہ افغان حکومت کو افغانستان کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو دوام دینے میں زیادہ دلچسپی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ افغان قیادت پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر افغان قیادت ان کے ساتھ مستقبل میں اسلامی نظام کے قیام پر اتفاق کریں تو طالبان جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔

ان کے بقول، افغان حکومت طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی صورت میں اپنی حکومت کا دورانیہ مکمل کرنا چاہتی ہے۔

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جاری جھڑپوں کے بعد شہریوں نے محفوظ مقامات کی جانب منتقلی شروع کر دی ہے۔ اگر یہ لڑائی طول پکڑتی ہے تو ایک مرتبہ پھر افغان عوام کو ہجرت کا سامنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم، کچھ ماہرین پُرامید ہیں کہ ملک دوبارہ نوے کی دہائی کی طرح انتشار کی جانب نہیں جائے گا۔

SEE ALSO: طالبان نے افغانستان کے کئی اہم اضلاع پر قبضہ کر لیا

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاردان یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ فہیم سادات نے کہا کہ طالبان افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے وقت کو جلد از جلد کیش کرانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اپنی کامیابی کو مذاکرات کی میز پر برتری کے طور پر پیش کر سکیں۔

فہیم سادات کے مطابق طالبان کو بھی یہ ادراک ہے کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں اور نوے کی دہائی کی طرح اب طاقت کے زور پر کابل کا کنٹرول حاصل کرنا ان کے اپنے مفاد میں نہیں ہو گا۔

ان کے بقول عالمی برادری کبھی بھی طالبان کے قبضے کی صورت میں بنائی جانے والی حکومت کی حمایت نہیں کرے گی اور پاکستان نے بھی افغانستان میں طاقت کے ذریعے تبدیلی کی حمایت سے انکار کیا ہے۔

فہیم سادات پرامید ہیں کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے قبل افغان حکومت اور طالبان کسی نتیجہ خیز نکتے پر متفق ہو جائیں گے اور اس اعتبار سے افغان قیادت کا حالیہ دورۂ واشنگٹن اہمیت کا حامل ہے۔