کابل: افغان فوٹو جرنلسٹ، مسعود حسینی پر قاتلانہ حملہ

کابل میں ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سے وابستہ ایک افغان فوٹو جرنلسٹ، مسعود حسینی پر جمعرات کو قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں وہ بال بال بچے۔

حسینی نے سنہ 2012میں بریکنگ نیوز فوٹوگرافی پر ’پُلٹزر پرائز‘ جیتا تھا۔ اُنھوں نے کابل میں زائرین سے کھچا کھچ بھرے شیعہ مزار پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد روتی ہوئی ایک لڑکی کی تصویر بنائی تھی، جسے پُلٹزر پرائز ملا تھا۔

حسینی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ تین مسلح افراد ایک کار سے باہر اترے اور اُن کی گاڑی پر فائر کیا، ایسے میں جب اُنھوں نے اپنی کار چلانا شروع کی۔

حسینی نے کہا کہ ’’جوں ہی میں نے گاڑی چلائی، ایک ٹویوٹا کار نے میرا راستہ روکا، اسلحے کے ساتھ تین افراد گاڑی سےباہر نکلے اور میری گاڑی پر فائر کھول دیا۔ صورت حال کو سمجھنے میں مجھے چند سیکنڈ لگے، تب مجھے محسوس ہوا کہ حملہ آور مجھے ہی ہدف بنا رہے ہیں۔‘‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’جب مجھے اس بات کا یقین ہوا کہ نشانے پر میں ہی ہوں، میں نے اپنی گاڑی مسلح افراد کی کار سے ٹکرا دی، اور جائے واردات سے دوڑ کر قریبی پولیس تھانے میں گھس گیا۔‘‘

حسینی نے کہا کہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ کسی گروپ کو ذمہ دار قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ اُنھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ یہ جرم کا عام واقع بھی ہوسکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ مسلح ڈکیتی کا واقع نہیں تھا، چونکہ کار کی چابی میرے پاس تھی اور میں اندر بیٹھا ہوا تھا۔ میں فون کارڈ خریدنے کے لیے باہر نکلا تھا اور (مسلح افراد) کو میری کار نظر آئی اور حملہ کیا‘‘۔

حسینی نے کہا کہ ماضی مین اُنھیں داعش اور طالبان کی جانب سے دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔

اس سے پہلے وہ ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) سے وابستہ رہے ہیں۔