افغانستان: پاکستان پر سرحدی خلاف ورزیوں کا الزام

افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ کابل حکومت اس معاملے پر اپنے مغربی اتحادیوں اور حکومت پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے۔
افغانستان کی وزارت داخلہ نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی فوج کی طرف سے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان صِدیق صدیقی نے پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران بھی افغان علاقوں پر بھاری توپ خانے سے بمباری کی گئی۔

’’افغانستان کی وزارت داخلہ ان حملوں کی مذمت اور انھیں فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘

ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت اس ضمن میں جو بھی فیصلہ کرے گی افغان سیکورٹی فورسز اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے اس پر عمل درآمد کی منتظر رہیں گی۔

اُنھوں نے کہا کہ افغان حکومت اس معاملے پر اپنے مغربی اتحادیوں اور حکومت پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے مگر ان کے بقول افغانستان جو بھی جوابی کارروائی کرے گا وہ ذمہ دارانہ اور قانونی حدود میں رہ کر کی جائے گا۔ تاہم افغان ترجمان نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

لیکن پاکستانی فوجی اور سویلین حکام کا موقف ہے کہ پاک افغان سرحد پر 50 سے زائد راستوں سے دراندازی کرتے ہوئے افغانستان میں مفرور عسکریت پسندوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی علاقوں پر 15 سے زائد حملے کیے ہیں جن میں 100 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی افواج افغان سرحد کی طرف پسپائی اختیار کرنے والے ان ہی دراندازوں کو نشانہ بنانے کے لیے جوابی حملےکرتی ہیں۔

کابل میں نیوز کانفرنس میں موجود نیٹو افواج کے ترجمان جرمن بریگیڈیئر جنرل گنٹر کاٹز نے سرحد پر اس کشیدگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پاک افغان کوششیں انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔

اس ضمن میں انھوں نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور افغان سفیر کے درمیان ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

’’ہم (نیٹو) دوطرفہ ملاقاتوں کا حصہ نہیں ہیں مگر سہہ فریقی اجلاسوں میں ان امور پر مشترکہ طور پر حل کرنے اور سرحدوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر باقاعدگی سے بات چیت کی جاتی ہے۔‘‘