پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام نے اسلام آباد اور کابل میں مختلف شعبہ جات میں تعاون کو فروغ دینے کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے کابل میں ایک اجلاس میں شرکت کی ہے۔
افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی فریم ورک کے تحت پیر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے کی۔ جب کہ افغان وفد کی قیادت افغان نائب وزیرِ خارجہ میر ویس ناب نے کی۔
اجلاس سے قبل پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے وفد کے ہمراہ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ حنیف اتمر سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا۔
اسلام آباد اور کابل نے بین الادارتی روابط کے لیے افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی کا فریم ورک مئی 2018 میں تیار کیا تھا جس کا مقصد دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا تھا۔ اسی طرح سیاسی، سفارتی، انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور مشترکہ اقتصادی ترقی سے متعلق معاملات کے حل کے لیے پانچ فریم ورک تشکیل دیے گئے تھے۔ اس فریم ورک کا پہلا جائزہ اجلاس 10 جون 2019 کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے پیر کو شروع ہونے والے اجلاس سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل میں ہونے والے اجلاس میں گزشتہ سال جون میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ مزید پیش رفت کی جاسکے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کے بقول افغانستان پاکستان کے اس مشترکہ میکزم کے پلیٹ فارم کر مؤثر بنا کر امن، استحکام، خوش حالی اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کا اجلاس ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغان امن عمل کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف حال ہی میں پاکستان کی سرحد پر ہونے والے فائرنگ کے میبنہ واقعات سے اسلام آباد اور کابل میں بظاہر تناؤ کی صورتِ حال تھی۔
اس حوالے سے افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طویل وقفے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ فریم ورک کے اجلاس کا منعقد ہونا ہی اہم پیش رفت ہے۔
ان کے بقول افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن کو یکجہتی کا فریم ورک قائم ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن اس فریم ورک کا اس سے قبل صرف ایک اجلاس منعقد ہو سکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اس فریم ورک کے تحت قائم پانچ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ جن میں مہاجرین، سرحدی امور، باہمی تجارت، ٹرنزٹ ٹریڈ سمیت دیگر معاملات زیر بحث لانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق ان تمام معاملات پر اسلام آباد اور کابل کے درمیان اگرچہ تاحال قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان کے فریم ورک کے اجلاس کا انعقاد اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام آباد اور کابل دونوں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے باہمی معاملات بشمول تجارت، سرحد کی سیکیورٹی اور عسکریت پسندی کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنا اگرچہ ضروری ہے۔ لیکن زیادہ کوشش افغان امن عمل کے آگے بڑھانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
دوسری جانب اٖفغان وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے پیر کو کابل میں افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ حنیف اتمر سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
بیان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کر فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ افغان وزیرِ خارجہ نے سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ کے واقعات روکنے پر زور دیتے ہوئے سرحد پر یک طرفہ تعمیرات کو روکنے پر زور دیا ہے۔
یاد رہے کہ سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑھ نصب کی جا رہی ہے۔ اس معاملے پر اسلام آباد اور کابل کے درمیان اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔ بعض اوقات دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑھ کی تنصیب ضروری ہے۔
تاہم افغانستان کی طرف سے سرحد کو 'حل طلب معاملہ' قرار دیتے ہوئے ان اقدامات پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ جسے پاکستان مسترد کرتا آ رہا ہے۔