حسیب دانش علی کوزئی
افغانستان میں کئی عشروں سے جاری لڑائی کے دوران ملک کی فضائیہ کا زیریں ڈھانچہ اور ہتھیار، جس میں لڑاکا طیارے اور حربی صلاحیت رکھنے والے ہیلی کاپٹر شامل ہیں ضائع ہو چکے ہیں، جس کی وجہ ملک کی خانہ جنگی ہے جو اُس وقت چھڑی جب1980ء کی دہائی کے اواخر میں سابق سویت یونین کا ملک سے انخلا ہوا۔
میجر جنرل عبدالوہاب وردک، افغان ایئر فورس کے کمانڈر ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ، ’ایک وقت تھا جب ملک میں ایک مضبوط فضائیہ موجود تھی، جو اس قابل تھی کہ ملک کا علاقائی دفاع کیا جاسکے‘۔
بقول اُن کے، ’بدقسمتی سے، 1993ء کے بعد، افغان فضائیہ بری طرح تباہ ہوئی، جس کے نتائج ہم آج تک جھیل رہے ہیں‘۔
خانہ جنگی کے دوران، کئی ایک متحارب دھڑوں نے ملک کی دفاعی سرحدوں تک رسائی حاصل کرلی، جسے اُنھوں نے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کیا۔
وردک کے الفاظ میں، ’تقریباً 20 ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے افغانستان کے ہمسایہ ملکوں (ایران ور پاکستان کے) کو بھیجے گئے ہیں۔‘
فضائیہ کی عدم موجودگی اور افغان ہلاکتوں میں اضافہ
ملک بھر میں پھیلی ہوئی بغاوت کا مقابلہ کرنے، فضائی استعداد کو یقینی بنانے اور ملک کے اقتدار اعلیٰ کو بچانے کے لیے، افغان رہنماؤں نے ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری سے لڑاکا طیارے مانگے ہیں، تاکہ بغاوت کے خلاف لڑائی میں بَری افواج کی معاونت کو یقینی بنائی جاسکے۔
سنہ 2001میں طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد، مختلف افغان حکومتوں اور اُن کے بین الاقوامی اتحادی اس بات پر متفق نہیں رہے آیا افغان سکیورٹی فورسز کی فضائی میدان میں کس طرح مدد کی جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لڑایا طیارے فراہم کرنے سے پہلے امریکہ اور دیگر نیٹو پارٹنرز کو بہت سے عوامل کو مد نظر رکھنا پڑا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ افغان فضائی طاقت کہیں حادثاتی طور پر نیٹو اتحادیوں کے خلاف نہ استعمال ہو، جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
افغان نیشنل سکیورٹی فورسز (اے این ایس ایف) کے لیے، گذشتہ سال مہلک ترین خیال کیا جاتا ہے، جب سے امریکی قیادت والے اتحاد نے طالبان کا تختہ الٹا اور ملک میں نئے سکیورٹی کا ڈھانچہ قائم کیا۔
میرداد نجرابی، افغان پارلیمان کی قومی سلامتی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’افغان سلامتی افواج کی ہلاکتوں کی اہم وجہ مؤثر اور خودمختار فوائی فوج کی عدم دستیابی ہے‘۔
نجرابی نے مزید بتایا کہ لڑائی میں افغان ہلاکتوں میں خاصی کمی آسکتی ہے اگر فضائی معاونت کے نظام کو مؤثر بنایا جائے جس کی قیادت اور انتظام افغانوں کے حوالے ہو۔
سنہ 2016 میں افغان فضائیہ کے بہتری کے آثار
اِن خیالات کا اظہار امریکی وزیر دفاع، ایش کارٹر کے حالیہ بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جنھوں نے افغانستان کے ننگرہار صوبے کا دورہ کیا، جہاں داعش خاصا پھیل چکا ہے۔
کارٹر کے بقول، ’ماضی کے مقابلے میں، فضائی میدان میں امریکہ افغان افواج کی اتنی مدد نہیں کر پا رہا۔ لیکن، یہ اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کے مطابق اس مقام تک پہنچا جائے جہاں افغان اپنی فضائی مدد خود کرسکیں‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’جس طرح اس وقت افغان فضائی افواج کی ازسرنو تشکیل ہورہی ہے، بہتر ہوتا اگر اس کام کا آغاز پہلے کیا جاتا۔‘
کارٹر نے مزید کہا کہ اگلے سال تک افغانستان کے پاس اقتدار اعلیٰ کی حامل اپنی فضائی فورس ہوگی۔
جنرل وردک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’اموات کے اعتبار سے 2016 اے این ایس ایف کے لیے مختلف سال ثابت ہوگا۔ بقول آن کے، ’جنوری 2016ء کے آغاز ہی سے، افغان افواج کو 28 ایم بی 530 ایف ہیلی کاپٹر اور تقریباً 25 اے 29 طیارے فراہم کیے جائیں گے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’اِس وقت ہمارے پاس متعدد سی 130 اور سی 208 طیارے ہیں۔‘
جنرل نے بتایا کہ ایم بی 530 ہیلی کاپٹر میں فوجی آلات نصب کیے جائیں گے۔
ایک طویل عرصے سے افغان حکام شکایت کرتے آئے ہیں کہ زمینی فوج کو فضائی معاونت حاصل نہیں رہی، جب کہ پرانے ہیلی کاپٹر بھی موجود نہیں جو میدانِ جنگ سے زخمی افغانوں کو اسپتال کی جانب منتقل کرنے میں کام آسکیں۔
جنرل وردک نے کہا ہے کہ 2016ء میں ملنے والے نئے طیارے اس قابل ہوں گے کہ درپیش بہت سی مشکلات حل کی جا سکیں۔