بے ہنگم ٹریفک، گاڑیوں، فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں، ماحول دشمن طریقوں سے تعمیر ہونے والی بلند و بالا عمارتیں، آبادی میں دن دگنی رات چوگنی بڑھوتری، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور ایئر کنڈیشنز کا بے تحاشا استعمال۔۔۔ یہ شہرِ قائد کراچی کا وہ منظر ہے جو سال بہ سال ناقابلِ برداشت ہوتے درجۂ حرارت کی وجہ ہے۔
سن 2015 میں مئی اور جون کے یہی مہینے تھے جب پہلی بار شہر کا درجۂ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ سمندری ہوائیں تھم گئیں اور ہر طرف گویا آگ برسنے لگی۔ کراچی والوں نے پہلی مرتبہ 'ہیٹ ویو' کا نام سنا۔
اس کے اثرات اتنے بھیانک نکلے کہ تین دنوں میں 1200 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ مردہ خانے پر ہوگئے، قبرستان چھوٹے پڑنے لگے اور لوگ اپنوں کی میت لحد میں اتارنے کے لیے نصب شب تک انتظار کرتے۔
ہیٹ ویو کا خوف کئی سال گزر جانے کے باوجود اب تک ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ رواں سال بھی دو روز قبل تک چند دنوں کے وقفے سے دو ہیٹ ویو آئیں جن سے شہر کا درجۂ حرارت 45 ڈگری سے اوپر چلا گیا اور گرمی کا 37 سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
کیا اس درجۂ حرارت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین متفق ہیں کہ کراچی میں آئندہ برسوں میں مزید گرمی، ہیٹ ویو اور مجموعی درجۂ حرارت میں اضافے کے امکانات ہیں۔
کراچی میں ہر سال بڑھتی گرمی اور درجۂ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ بہت تیزی سے تعمیر ہونے والی کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتیں بھی ہیں۔
توصیف عالم کا کہنا ہے کہ کراچی میں بلند و بالا عمارتوں نے ہوا کا راستہ روک دیا ہے جبکہ شہر کو کم و بیش ڈھائی سے تین کروڑ درختوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ درخت لگ گئے تو شہری علاقوں میں ایئرکنڈیشنز کے استعمال میں 30 فی صد تک کمی آئے گی اور ہیٹ ویو سے چھٹکارا مل جائے گا۔ بصورت دیگر درخت، ہریالی، جنگلات اور سبزے سے عاری یہ شہر صدیوں تک سورج کی تپش میں جھلستا رہے گا۔
شہر کے ایک بزرگ رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے سرکاری ملازمت سے جڑے مشاق سبحانی نے وی او اے کو بتایا، "شہر میں پہلے نیم، برگد، پیپل، املی، نیم، بڑ، جامن اور اسی قسم کے درجنوں ہرے بھرے درخت ہوا کرتے تھے۔ گلی محلوں کی بات تو دور کی ہے، گھروں کے صحنوں میں گھنے اور قد آور درخت ہوتے تھے۔ مگر اب چھوٹے چھوٹے فلیٹس کی بڑی بڑی اور آسمان کو چھوتی عمارتوں نے درختوں کو نگل لیا ہے۔ درخت لگیں بھی تو کہاں؟"
یہی سوال جب وی او اے کے نمائندے نے ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم شیخ کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا، "یہ نہایت سود مند تجویز ہے کہ سپر ہائے وے یا نیشنل ہائے وے پر شہر کے قریب مصنوعی جنگلات بنائے جائیں۔ اس سے درجۂ حرات کو تقریباً دو سے آٹھ ڈگری تک کم کیا جاسکتا ہے۔ شہر میں سن 2008 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ کراچی میں اس وقت صرف سات فی صد درخت باقی بچے تھے، حالاں کہ یہ تعداد 25 فی صد ہونی چاہیے۔ یہ سروے بھی دس سال پرانا ہوگیا۔ لہذا اندازہ لگالیجیے کہ اب درختوں کی تعداد کتنی ہوگی۔"
'نیشنل فورم فار انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ' کی جانب سے کیے گئے ایک اور سروے کے مطابق کراچی میں صرف حالیہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے 52 ہزار تناور درخت کاٹ دیے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گارڈن، صدر، کلفٹن، شاہراہِ فیصل، ایئر پورٹ، ناظم آباد، کارساز، راشد منہاس روڈ، نیو ایم اے جناح روڈ اور یونیورسٹی روڈ وغیرہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پچھلے 20 برسوں کے دوران درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر اشتہاری بورڈ لگانے کے لیے بھی سایہ دار درختوں کا قتل کیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کراچی کا ماحولیاتی توازن بہت برے طریقے سے بگڑ چکا ہے۔
ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ درجۂ حرارت میں کمی کے لیے نیم کے درخت سب سے زیادہ کارگر ہیں جو سخت آب و ہوا کو بھی آسانی سے جھیل جاتے ہیں۔ کراچی میں نیم کے درخت لگانے کا سب سے بہتر وقت 15 جولائی سے 15 ستمبر تک ہے۔ اگرسرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر، یہاں تک کہ ہر شخص کم از کم ایک درخت اپنے ہاتھوں سے لگانا اپنے اوپر فرض کرلے تو آئندہ چند برسوں میں ہی موسم کو اعتدال میں لایا جاسکتا ہے۔
کراچی میں املتاس، بادام، شریفے، آم، امرود، شہتوت، پپیتے، ببول، شیشم، مہندی، انار، جامن، جنگل جلیبی، لسوڑے، بیل گری، کٹھل، کیکر اور گوندنی کے درخت عام ملتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوگئے ہیں۔
شہر کو ان درختوں کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پھیلتے ہوئے شہر کو سمیٹا نہیں جاسکتا۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی رہائشی اسکیموں اور منصوبوں کی بھی ضرورت ہے۔
ایسے میں اس بات کو لازمی بنانا ہوگا کہ ہر رہائشی اسکیم اور منصوبے میں شجرکاری کے لیے بھی مناسب جگہ لازمی مختص کی جائے۔ حکومت کی طرف سے کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس میں درخت اور سبزے کے لیے بھی مناسب جگہ نہ ہو۔"
تاریخی غلطی
درخت اگانے کے معاملے میں شہری انتظامیہ سے ماضی میں ایک بھیانک غلطی ہوچکی ہے۔ سن 2008 میں شہری انتظامیہ نے شہر بھر میں 25 لاکھ نئے پودے اور درخت لگائے تاکہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ اور درجۂ حرارت میں کمی ہو۔
لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے غلطی یہ ہوئی کہ سارے شہر میں کونو کارپس کے درخت لگادیے گئے جس سے دمے اور سانس کی بیماریاں پھیلنے لگیں۔ شجرکاری کے ماہرین کے مطابق کونوکارپس کے درخت نہ تو سایہ دار ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شہر میں اب بھی بہت سے مقامات پر کونو کارپس کے درخت نظر آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ شہر سے سفیدے کے درخت اور کونو کارپیس کو کاٹ کر ان کی جگہ شہر کے موسم سے مطابقت رکھنے والے پیپل، برگد، نیم، املی، ناریل،چیکو، کھجور، بیر، جنگلی بادام، امرود، گل مہراور پارس کے درخت لگائے جائیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی اور رقبے کے تناسب سے شہر میں دو تا ڈھائی کروڑ درخت ہنگامی بنیادوں پر نہ لگائے گئے تو آنے والے برسوں میں کراچی کا موسم گرم سے گرم تر ہوتا جائے گا۔